یونان کشی حادثے کے متاثرین کی شناخت کا عمل سست روی کا شکار

لیبیا سے یونان جانے والی کشتی کے حادثے کا شکار سینکڑوں افراد کے لواحقین ابھی تک ان کے بارے میں جاننے کے لیے بے تاب ہیں۔ یونانی حکام متاثرین کے رشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ اور انٹرویوز کر رہے ہیں۔

یونان کشی حادثے کے متاثرین کی شناخت کا عمل سست روی کا شکار
یونان کشی حادثے کے متاثرین کی شناخت کا عمل سست روی کا شکار
user

Dw

جون کے مہینے میں لیبیا سے اٹلی جانےکی کوشش میں غیر قانونی تارکین وطن سے بھری ہوئی ایک خستہ حال ماہی گیر کشتی کے حادثے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے واقعے کے بعد بعد اس حادثے میں مارے جانے اور لاپتہ ہونے والوں کی تلاش جاری ہے۔

اس کشتی کو حادثہ چودہ جون کو وسطی بحیرہ روم میں پیش آیا تھا۔ اور اس ضمن میں یونانی حکام کے ردعمل کے بارے میں بہت سے سوالات باقی ہیں اور یہ کہ ایک ایسی کشتی جس میں اندازوں کے مطابق پانچ سے ساڑھے سات سو کے درمیان افراد سوار تھے،کس طرح الٹی اور ڈوب گئی۔


سمندر سے صرف 104 افراد کو زندہ نکالا گیا۔ یہ تمام لڑکے اور مرد تھے۔ اس کشتی میں 82 لاشیں برآمد کی گئیں، جن میں سے صرف ایک خاتون تھی۔ اس علاقے میں بحیرہ روم کی گہرائی تقریباً 4,000 میٹر ہے اور یہاں سے بحری جہاز یا اس کے متاثرین کی بازیابی ناممکن ہے۔

سست روی کا شکار شناختی عمل

مرنے والوں کی شناخت اور اس بات کا تعین کرنا کہ اس کشتی میں کون کون سوار تھا، ایک پیچیدہ عمل ہے۔ یونان کی ڈیزاسٹر وکٹم آئیڈینٹیفیکیشن ٹیم کے کمانڈر پولیس لیفٹیننٹ کرنل پینٹیلس تھیملیس نے بتایا کہ سات اگست تک، ڈی این اے تجزیوں، دانتوں کے ریکارڈ، فنگر پرنٹس اور زندہ بچ جانے والوں اور رشتہ داروں کے انٹرویوز کے ایک محنت طلب عمل کے ذریعے 40 کے قریب برآمد شدہ لاشوں کی شناخت کی گئی۔


کچھ لوگوں کے لیے دفنانے کے لیے لاش نہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے ان کا پیارا کسی نہ کسی طرح زندہ ہو حالانکہ اب ایسا ممکن نہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت کے مضافات میں ایک غریب فلسطینی پناہ گزین کیمپ کے رہائشی محمد دیاب کا 21 سالہ بیٹا عبدالرحمٰن اس حادثے کے بعد سے لاپتہ ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''میں اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں کہ خدا کے فضل سے میرا بیٹا زندہ ہے اور مجھے ایک فیصد بھی یقین نہیں آتا کہ میرا بیٹا مر گیا ہے، ڈوب گیا۔ میں اس بارے میں سوچتا بھی نہیں ہوں۔‘‘

امیدو یاس کے درمیان

تقریباً دو ماہ سے اپنے بیٹے کی تلاش میں دیاب اپنے پاس موجود تمام آپشن استعمال کر چکے ہیں۔ انہوں نے لاپتہ افراد پر بین الاقوامی کمیشن کے ذریعے ڈی این اے کا نمونہ فراہم کیا، رشتہ داروں کو یونان بھیجا، اور گھنٹوں اپنے فون پر وقت گزارا، کالیں کیں اور زندہ بچ جانے والوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پربار بار دیکھتے رہے۔


ان کے پاس اپنے بیٹے کے لیے صرف ایک امید ہے اور وہ کشتی ڈوبنے کے فوری بعد کی ایک ویڈیو میں موجود ایک مختصر لمحہ ہے، جس میں دیاب کے اپنے بیٹے سے مشابہت رکھنے والے ایک شخص کو جنوبی یونانی شہر کالاماتا کے ایک ہسپتال میں لے جایا جا رہا ہے۔

دیاب کا اصرار ہےکہ ان کا بیٹا کوما میں ہو سکتا ہے، یا قید ہے اور اپنے خاندان سے رابطہ کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن اس حادثے میں زندہ بچ جانے والےتمام افراد کو طویل عرصے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔


مصر سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو مشتبہ اسمگلروں کے طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ عبدالرحمن کا نام ان میں بھی شامل نہیں۔ اپنے بڑے بیٹے کو کھونے کا خیال دیاب کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لہٰذا دیاب شدت سے یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح عبدالرحمن ابھی تک زندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا پر میرا ایمان بہت زیادہ ہے۔

دریں اثناء یونانی حکام کشتی حادثے کے متاثرین کی شناخت کے عمل میں مدد کے لیے مختلف ممالک سے لوگوں کے رشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ حاصل کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان پہلے ہی سینکڑوں ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج بھیج چکا ہے۔ ان ممالک میں جہاں قریبی رشتہ داروں کے انٹرویوز اور ڈی این اے جمع کرنا مشکل تھا، یہ کردار ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ انجام دے رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔