کورونا وائرس اور ذہنی صحت: ’ہم معاشرتی تنہائی کے ليے نہیں بنائے گئے‘

بار بار ہاتھ دھونا، رابطوں ميں فاصلہ برقرار رکھنا اور مختلف صورت حال سے نمٹنے کے ليے تيار رہنا۔ یہ سب بہت سے لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے ليکن ذہنی بیمار افراد کے ليے یہ بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔

کورونا وائرس اور ذہنی صحت: ’ہم معاشرتی تنہائی کے ليے نہیں بنائے گئے‘
کورونا وائرس اور ذہنی صحت: ’ہم معاشرتی تنہائی کے ليے نہیں بنائے گئے‘
user

ڈی. ڈبلیو

جب بچوں کو اس طرح کے غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ گھر ميں شور و غل مچا کر اور اچھل کود کر کے اپنا اسٹریس يا ذہنی الجھن ظاہر کر ديتے ہيں۔ سوال يہ ہے کہ جب ان بچوں کے والدين ميں سے کوئی پہلے سے ذہنی بیماری ميں مبتلا ہو، تو پھر ديگر اہل خانہ اس صورتحال سے کيسے نمٹتے ہيں؟

جرمنی کی ڈریسڈن یونیورسٹی ہسپتال میں محکمہ سائیکياٹری اور سائیکو تھراپی کی سینئر معالج اور جرمن سوسائٹی آف سوسائيڈ پريونشن کی چیئر وومن اوٹے لیووٹسکا کا کہنا ہے، ''ذہنی بیماری ميں مبتلا افراد ان حالات ميں اکثر اپنی پیٹھ پر رکسيک يا بستا لے کر باہر نکل پڑتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بستا نسبتاً ہلکا ہوتا ہے اور پھر ایسا وقت بھی آتا ہے جب رکسیک بہت بھاری ہو جاتا ہے، جس کی وجہ بیرونی تناؤ يا اسٹريس کے عوامل ہوتے ہیں، بالخصوص اگر ايسی صورت حال لمبے عرصے برقرار رہے۔‘‘ لیووٹسکا نے اپنی اس وضاحت ميں بستے يا رکسيک کو محض علامتی طور پر استعمال کيا، در اصل ان کی مراد ذہنی صحت کے سبب بوجھ سے ہے۔


لگ بھگ 450 ملین افراد متاثر

اس وقت دنیا بھر میں قريب 450 ملین افراد ذہنی امراض ميں مبتلا ہیں۔ جے کیولين کرتسمان کی عمر 33 برس ہے۔ ان کے ليے بھی بیگ یا رکسيک نیا نہیں۔ وہ 20 سال سے ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کے ساتھ جی رہی ہيں، جو افسردگی اور اضطراب کی شکل ميں ظاہر ہوتا ہے۔ صحت کے اعتبار سے عام طور پر وہ خود کو کافی مستحکم محسوس کرتی ہے۔ ان کا اور ان کے ڈس آرڈر کا تفصيلی تجزیہ کیا گيا۔ کرتسمان ذہنی دباؤ کے ليے دوائيں لیتی رہی ہيں۔


اس کے بعد کورونا وائرس آیا۔ اچانک، جے کیولين کرتسمان کی روز مرہ کی زندگی بدل گئی۔ وہ جس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہيں، وہ بند پڑی ہے۔ ان کا روز مرہ کا معمول تبديل ہو گیا ہے اور وہ اب گھر سے کام کر رہی ہيں۔ کرتسمان کو ہر گزرتے دن کے ساتھ صبح اٹھنا مشکل لگ رہا ہے۔

افسردگی ، اضطراب اور جنونی مجبوری عوارض


افسردگی کے شکار افراد کے لیے روز مرہ کے معمولات کا اچانک تبديل ہو جانا، روز مرہ زندگی کے اسٹرکچر کے کھو جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ان پریشانیوں سے دوچار افراد کے ليے موجودہ حالات تباہ کن خبروں کی گردش، اداسی یا چڑچڑاپن متحرک کرتے ہيں۔

'اوبسيسيو کمپلسيو ڈس آرڈر‘ او سی ڈی يعنی جنونی مجبوری عوارض یا رجحانات کے حامل افراد کے لیے حفظان صحت سے متعلق ملنے والی مستقل کالیں یا ہدايات، جيسے کہ بار بار ہاتھ دھونا ايک مشکل بن جاتی ہے۔ او سی ڈی کے شکار افراد ہاتھ دھوتے چلے جاتے ہيں لیکن ان کی تسلی نہيں ہوتی۔ جرمنی کے فیڈرل چیمبر آف سائیکو تھراپسٹس کے صدر ڈیٹرش منز کہتے ہیں، ''آخر کار یہ ایک وسیع المیہ خوف ہے۔ ہم وائرس نہیں دیکھتے ہیں، ہم صرف ان تمام مقامات کے بارے میں تصور کر سکتے ہیں جہاں وہ موجود ہوسکتے ہیں۔‘‘


جسمانی صحت کو اضافی خطرات

جیسا کہ ہارورڈ اور شنگھائی کے محققین نے لینسیٹ سائکیاٹری نامی جریدے میں نشاندہی کی، موجودہ وبائی مرض کے بحران کے دوران ذہنی مریضوں کو لاحق خطرات کی وجہ زیادہ تر ان کی نفسیات ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اگر مریضوں میں فہم و ادراک کی کمی ہو تو ان ميں جسمانی انفیکشن کے خطرے میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی دیکھ بھال کرنے کی کم اہلیت رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے ليے آن لائن جسمانی تھراپی حاصل کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ ان کے خلاف امتیازی سلوک ابھی بھی بہت واضح طور پر پایا جاتا ہے۔


ايسے ميں ماہرين کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی بحرانی صورتحال میں معاشرتی یکجہتی نہايت اہم کر دار ادا کر سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔