بنگلہ دیش پولیس پر روہنگیا مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام

حقوق انسانی کے گروپوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی مسلح پولیس بٹالین کاکس بازار کے پناہ گزین کیمپوں میں ابتر حالت میں رہنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کو ہراساں کر رہی ہے۔

بنگلہ دیش پولیس پر روہنگیا مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام
بنگلہ دیش پولیس پر روہنگیا مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام
user

Dw

انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم 'فورٹیفائی رائٹس' نے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بنگلہ دیش پولیس فورس کی ایک خصوصی عسکری یونٹ مسلح پولیس بٹالین (اے پی بی این) کے اہلکار کاکس بازار شہر کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے روہنگیاؤں کو من مانے طورپر حراست میں لے رہے ہیں، مارپیٹ رہے ہیں اور تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔

تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ، "بنگلہ دیش کی پولیس نے میانمار سے آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کو لاٹھیوں سے مارا پیٹا، گلاگھونٹا اور اذیت رسانی کے دیگر طریقے استعمال کیے تاکہ وہ بھتے وصول کرسکیں۔ بعض اوقات یہ رقم ہزاروں امریکی ڈالر کے برابر ہوتی ہے۔" اے پی بی این کو جولائی 2020 میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں سکیورٹی کو برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اس فورس پر روہنگیاؤں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات بارہا لگ چکے ہیں۔


فورٹیفائی رائٹس کے چیف ایگزیکٹیو افسر میتھیو اسمتھ نے کہا کہ پولیس "روہنگیا پناہ گزینوں کو انسانی اے ٹی ایم کی طرح استعمال کر رہی ہے اور غیر قانونی طور پر رقم اینٹھنے کے لیے انہیں شدید جسمانی اور ذہنی اذیتیں دے رہی ہے۔" اس سال کے اوائل میں ایک اور بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو)نے بھی اے پی بی این پر بھتہ خوری، من مانی گرفتاریوں اور روہنگیا پناہ گزینوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ فورٹیفائی رائٹس اور ہیومن رائٹس واچ دونو ں نے کہا کہ ان کی رپورٹیں کیمپوں میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کے انٹرویوز پر مبنی ہیں۔

روہنگیا مہاجرین کسمپرسی کی حالت میں

بنگلہ دیش میں اس وقت تقریباً دس لاکھ روہنگیا مقیم ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق ہمسایہ میانمار کی رکھائن ریاست کی مسلم اقلیت سے ہے۔ سن 2017 میں لاکھوں روہنگیاؤں کو اس وقت میانمار چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا جب وہاں کی فوج نے ان کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس واقعے نے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا۔ میانمار میں تشدد کے ان واقعات کو نسل کشی سے تعبیر کیا گیا اور بین الاقوامی فوجداری عدالت میں یہ معاملہ زیر غور ہے۔


بدعنوانی اور استحصال کا کلچر؟

کاکس بازار میں مقیم ایک روہنگیا محقق رضاالرحمان لینن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "اے پی بی این کی نگرانی میں کیمپوں میں تحفظ اور سلامتی کی صورت حال ابتر ہوگئی ہے۔" انہوں نے کہا کہ "روہنگیا پناہ گزینوں اور امدادی کارکنوں کی حالیہ گواہیاں اے پی بی این میں پائی جانے والی بدعنوانی اور استحصال کے ادارہ جاتی ثقافت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "ایک واضح پالیسی کی ضرورت ہے جو روہنگیا ؤں کی آوازوں پر مشتمل ہوتا کہ انسانی حقوق کے مناسب تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے بغیر قانون نافذ کرنے والے ادارے کمزور کمیونٹی کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتے رہیں گے اور یہ مسئلہ مزید بڑھتا جائے گا۔" انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بنگلہ دیشی دوستوں نے بھی ہمارا استحصال کیا، وہ ہم پر ترس نہیں کھاتے اور مالی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کیمپوں میں پولیس کی طرف سے بھتہ خوری کا معاملہ روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔"


سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال

انبیاء پروین کا کہنا تھا کہ حکام ایسے روہنگیا نوجوانوں کو خاص طورپر نشانہ بنا رہے ہیں جو پناہ گزینوں کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہیں یا جو غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا، "کیمپوں میں تعینات بہت سے پولیس یا سکیورٹی گارڈ بدعنوان ہوچکے ہیں۔ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کو ممکنہ اضافی آمدن کے حصول کا ذریعہ کے طورپر دیکھتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی گرفتار ہونے کے بعد پولیس کو بھتہ ادا نہیں کرتا ہے تو یہ لوگ اسے جیل بھیج دیتے ہیں۔"

حالیہ برسوں میں روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں سکیورٹی کی صورت حال ابتر ہوئی ہے۔ تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور مسلح گروپ طاقت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور مخالفین کا اغوا کررہے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ بھی ایک بڑی تشویش ناک صورت حال اختیار کرچکی ہے کیونکہ بہت سے روہنگیا نئی زندگی شروع کرنے کے لیے کسی تیسرے ملک کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


مزید احتساب کا مطالبہ

بنگلہ دیش میں بیشتر روہنگیاؤں کو تسلیم شدہ قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے ملکی قانون کے تحت تحفظ حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لینن کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں موجودہ قانونی نظام سست اور تفریقی ہے جس کے نتیجے میں قصورواروں کو سزا نہیں مل پاتی۔

لینن کا کہنا تھا،" مجھے کسی ایسے معاملے کا علم نہیں جہاں اے پی بی این کے کسی بھی اہلکار کو، پناہ گزین کیمپوں کے اندر جرائم کے ارتکاب پر، انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو۔" انسانی حقوق کے گروپوں نے بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اے پی بی این کے بدعنوان اہلکاروں کا احتساب کرے۔ لیکن اے پی بی این کے ایڈیشنل ڈپٹی انسپکٹر جنرل عامر ظفر ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ بدعنوان اہلکاروں کے خلا ف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔


انہو ں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ فورس کے کچھ ارکان کو حال ہی میں کیمپوں میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں برطرف کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ" ہم ایسے الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اگر کوئی پولیس اہلکار غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے تو ہم تحقیقات کے بعد کارروائی کرتے ہیں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔