نجی شعبے سے اشتراک سرکاری اسکولوں میں تعلیم کو کیسے متاثر کرے گا؟

گزشتہ کئی ہفتوں سے پنجاب کے تقریباً 48 ہزار سرکاری اسکولوں میں تدریسی سرگرمیاں معطل ہیں۔ اساتذہ مظاہرے کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سرکاری اسکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے کے حکومتی فیصلے ہیں۔

نجی شعبے سے اشتراک سرکاری سکولوں میں تعلیم کو کیسے متاثر کرے گا؟
نجی شعبے سے اشتراک سرکاری سکولوں میں تعلیم کو کیسے متاثر کرے گا؟
user

Dw

ریڈیو پاکستان نے دس ستمبر کو خبر دی تھی کہ پنجاب حکومت صوبے بھر کے تقریباً دس ہزار اسکولوں کو مسلم ہینڈز کے حوالے کرنے جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی اور مسلم ہینڈز کے چھ رکنی وفد کے درمیان ہونے والی ملاقات میں طے پایا ہے۔ اگرچہ صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے اس دعوے کو ”پراپیگنڈا" قرار دے کر مسترد کیا ہے تاہم آزاد ذرائع اور خود مسلم ہینڈز کے ترجمان ریحان طاہر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے پنجاب ٹیچر یونین کے جنرل سیکرٹری لیاقت علی کا کہنا تھا کہ یہ مرحلہ وار عمل ہے، ''حکومت ابتدائی طور پر ایک ہزار اسکولوں کی نجکاری کر رہی ہے، جس کے بعد دیگر نو ہزار اسکول اور پھر سلسلہ در سلسلہ۔ ہم اسے یہیں روک دینا چاہتے ہیں تاکہ اسکول ایجوکیشن کو تباہی سے بچایا جا سکے۔"


پینشن اصلاحات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ”پہلے ہماری پینشن اور دیگر مراعات کا تعین ریٹائرمنٹ کے وقت کے اسکیل کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ اب حکومت اسے تبدیل کرتے ہوئے بھرتی کے وقت ملنے والے اسکیل کی بنیاد پر پیشن کا تعین کرنے جا رہی ہے۔ یوں عملی طور پر ہماری پینشن اور دیگر مراعات نصف رہ جائیں گی۔"

یہ اسکولوں کی نجی کاری نہیں

اساتذہ، بیوروکریسی اور سیاستدان کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کے مصنف جاوید احمد ملک تعلیمی شعبہ میں بطور پالیسی ساز ایک معروف نام ہیں۔ وہ 2009ء سے 2018ء تک پنجاب کی تعلیمی اصلاحات کا براہ راست حصہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اسکولوں کی نجی کاری نہیں بلکہ انتظامی سطح پر حکومت اور پرائیوٹ سیکٹر کا اشتراک ہے۔


ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں حکومت سرکاری اسکول اور ان کا ڈھانچہ نجی سیکٹر کی ملکیت میں دے رہی ہے، ''یہ تعلیمی دائرے کو وسیع کرنے اور اس کا معیار بہتر بنانے کے لیے دونوں کا اشتراک ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب میں تقریباً چالیس ہزار پرائمری اسکول ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لیے چھ اسکول ٹیچر درکار ہیں۔ تاہم کم و بیش نصف میں محض دو اساتذہ سے کام چلایا جا رہا ہے۔ اب دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جیسے وہ چل رہے ہیں ویسے ہی چلنے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ نجی سیکٹر کے فلاحی اداروں کی خدمات لی جائیں اور ان میں عملے سمیت دیگر انتظامی کمیاں دور کی جائیں۔ ایسے میں حکومتیں اسکولوں کے انتظامی امور تعلیمی میدان میں کام کرنے والے اداروں کے سپرد کرتی ہیں اور بدلے میں فی طالب علم معمولی رقم ادا کرتی ہیں۔ یہ فارمولا صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ بنگلہ دیش جیسے جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے۔"

لیاقت علی کہتے ہیں ”یہ سب کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا پورے صوبائی خزانے کا بوجھ شعبہ تعلیم نے اٹھانا ہے؟ اساتذہ کی بھرتیاں کیوں نہیں کی جاتیں؟ نئے اسکول کیوں نہیں بنائے جا رہے؟" جاوید احمد ملک کہتے ہیں، ”آئیڈیل صورت میں یہ بات ٹھیک ہے۔ اس وقت پنجاب میں اساتذہ کی ایک لاکھ سے زائد آسامیاں خالی ہیں اور تقریباً گزشتہ سات برس سے اساتذہ کی نئی بھرتیاں نہیں ہوئیں۔ یہ ساتھ ساتھ ہونی چاہیے تھیں لیکن اب ناممکن ہو چکا ہے۔ کورونا کے بعد ہماری معیشت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ خزانہ نئی بھرتیاں اور پھر اساتذہ کی پنشن برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لیے وقتی طور پر نجی سیکٹر سے اشتراک کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں اور اس میں کوئی ہرج بھی نہیں۔"


اس سے تعلیم کا دائرہ وسیع اور معیار بہتر ہو گا

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی شعبہ تعلیم کی ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر (ای ڈی او) راشدہ خانم ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”اس سے تعلیم کا دائرہ وسیع اور معیار بہتر ہو گا۔" وہ اپنی بات ایک مثال سے واضح کرتی ہیں۔ ”رواں برس مہم چلائی گئی کہ زیادہ سے زیادہ بچے اسکولوں میں داخل کیے جائیں، بہت ہنگامہ برپا کیا گیا، بینر لگوائے گئے، مہم چلائی گئی۔ پھر پورے صوبے میں سروے کروایا گیا تو پتہ چلا کہ چھتیس اضلاع کے تمام سرکاری اسکولوں میں پانچ لاکھ سے زیادہ بچے داخل کرنے کی گنجائش نہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں تقریباً ایک کروڑ بچہ اسکول سے باہر ہے۔ باقی پچانوے لاکھ کدھر جائے گا؟ حکومت چاہ کر بھی اسے پورا کرنے سے قاصر ہے، اس کے پاس فنڈز ہی نہیں۔"

وہ کہتی ہیں ”اگر یہ بچے تعلیم سے محروم رہ گئے تو اس کے اثرات برسوں پر نہیں دہائیوں پر محیط ہوں گے۔ حکومت کے پاس وسائل نہیں، نجی شعبے سے اشتراک بہترین متبادل ہے۔ ان بچوں کو سکولوں میں لانا اولین ذمہ داری ہے۔ یہ سب وہ بچے ہیں، جن کے والدین پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ اساتذہ کا احتجاج دراصل پنشن مراعات میں ممکنہ کٹوتی کا ردعمل ہے۔"


نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کے مطابق ”فلاحی تنظیموں اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم بہتر ہو گا۔ ہر ضلع سے دو سے تین اسکول منتخب کر کے انہیں دانش اسکولوں کی طرح بطور ماڈل تیار کیا جائے گا۔" جاوید احمد ملک کے بقول ”یہ حکمت عملی ابھی تک کامیاب رہی ہے۔ اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ اس سے گریز کا نتیجہ لاکھوں بچوں کے تعلیم سے محرومی کی صورت میں نکلے گا۔"

اساتذہ کے احتجاج کو تین ہفتے ہو چکے ہیں

لیاقت علی کہتے ہیں کہ دفعہ 144 نافذ کر کے اساتذہ کو مارا گیا، ''ان کے گریبان پھاڑے گئے، دو سو سے زیادہ اساتذہ کو پکڑا گیا۔ حکومت پہلے ہمیں نظر انداز کرتی ہے اور جب ہم اپنے حق کے لیے پرامن احتجاج کریں تب لاٹھیاں برساتی ہے۔ "


جاوید احمد ملک کہتے ہیں کہ حکومت کا نجی سیکٹر سے اشتراک گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے لیکن اس بار احتجاج میں زیادہ شدت دو وجوہات کی بنا پر نظر آئی۔ پہلی یہ کہ منتخب کے بجائے نگران حکومت ہے اور اس نے اساتذہ کو اعتماد میں لیے بغیر یہ قدم اٹھایا۔ دوسری وجہ پینشن مراعات میں ممکنہ اصلاحات ہیں۔"

وہ کہتے ہیں، ”اساتذہ سٹیک ہولڈر ہیں انہیں اہم فیصلہ سازی میں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہیں لگتا ہے جیسے ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ کوئی ان کی رائے لینے کو تیار نہیں۔جہاں تک پینشن کی بات ہے تو تنخواہ دار طبقہ بے تحاشا ٹیکس ادا کرتا ہے اسے پینشن ملنی چاہیے۔ یک طرفہ فیصلے ٹھونسنے سے ادارے چلتے ہیں نہ ملک۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔