قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟

قدرتی آفات سے ہونے والے مالی نقصان کا تخمینہ لگانا ایک مشکل کام ہے۔ یہ حساب کتاب ایک پیچیدہ عمل ہے، جس میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اندازہ لگانے کے کچھ طریقہ کار یوں ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

ترک انٹرپرائز اینڈ بزنس کنفیڈریشن کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مشرقی ترکی میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کا تخمینہ 84 ارب ڈالر (80 ارب یورو) لگایا گیا ہے، جو ترکی کی مجموعی ملکی پیداوار کا تقریبا 10 فیصد بنتا ہے۔

صرف ترکی میں عمارتیں منہدم ہونے کی وجہ سے تقریبا 70.8 بلین ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ 10.4 بلین ڈالر قومی آمدنی کو ہونے والے نقصان اور 2.9 بلین ڈالر ورکنگ دن ضائع ہونے کی وجہ سے برباد ہوئے۔ امریکی ڈیٹا اینالٹکس فرم ویرسک کا کہنا ہے کہ اس زلزلے سے ہونے والے معاشی نقصانات کم از کم 20 ارب ڈالر ہیں جبکہ کئی دیگر اندازے اس کے درمیان ہیں۔


زلزلے کا یہ حساب کیسے لگایا جاتا ہے اور تخمینے اتنے مختلف کیوں ہیں؟ آئیے اب اس الجھن کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی زندگی کی قدر کیا ہے؟

ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ میلانی گال کے مطابق اس طرح کی آفات کے معاشی اثرات کا حساب لگانے کے لیے عام طور پر دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ براہ راست اثرات کا ہے، یعنی وہ نقصانات، جو فوری طور رونما ہوتے ہیں، جیسے گھروں کو نقصان اور چوٹیں وغیرہ۔ گیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ براہ راست نقصانات کا اندازہ انشورنس کمپنیوں کی جانب سے خدمات حاصل کرنے والے پیشہ ور تجزیہ کاروں کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے۔


دوسرا طریقہ ہے بالواسطہ اثرات کا، یہ وہ ہیں، جو کسی حادثے یا قدرتی آفت کے ثانوی اثرات سے پیدا ہوتے ہیں، جیسے شٹ ڈاؤن کے دوران کاروباری نقصانات، کارکنوں کے لیے آمدنی کا نقصان اور پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) میں مبتلا افراد کی بے روزگاری۔ اس طرح کے نقصانات کا حساب عام طور پر معاشی ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے لگایا جاتا ہے۔

گیل کے بقول، ’’زیادہ تر واقعات میں یہ تخمینے پیشہ ور تخمینہ کاروں کی طرف سے نہیں آتے ہیں۔‘‘ انشورنس کمپنیاں اور انشورنس ٹریڈ ایسوسی ایشنز عام طور پر پہلا تخمینہ لگاتی ہیں، جن میں جائیداد کے نقصان پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ انشورنس کمپنیاں ان تخمینوں کی بنیاد بیمہ شدہ اور غیر بیمہ شدہ جائیداد کے موازنے کو بناتی ہیں۔ یوں وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں کہ کل نقصان کتنا ہوا؟


یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں خطرات اور ہنگامی حالات کے خطرے اور معاشی تجزیات کے مرکز کے سینئر ریسرچ فیلو ایڈم روز ایسے اندازے لگانے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے اس مقصد کی خاطر ایک سافٹ ویئر تیار کیا ہے، جسے اقتصادی نتائج تجزیہ ٹول، یا ای سی اے ٹی کہا جاتا ہے۔ روز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کسی بھی آفت کے نقصان کا درست تخمینہ صرف ایک محتاط کیس اسٹڈی کے بعد ہی طے کیا جا سکتا ہے، جسے مکمل ہونے میں مہینوں یا سالوں کا وقت لگتا ہے۔‘‘

روز کے سافٹ ویئر کو اسی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے، جب آفت کے ابتدائی پیمانے کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات دستیاب ہو جائیں۔ روز کے مطابق ایک مسئلہ انسانی زندگی کی قدر کا ہے، جس میں عام طور پر کسی شخص کی کمائی سے متعلق ایک بڑا حصہ شامل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ترکی جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہونے والے جانی نقصان کا موازنہ کسی ترقی یافتہ ملک سے ہونے والے ایسے نقصان سے نہیں کیا جا سکتا۔


جن زمروں کا جائزہ لیا جاتا ہے ان میں کاروباری تعطل، معاشی سرگرمی میں کمی یا تو کھوئی ہوئی آمدنی کے لحاظ سے پیمائش کی جاتی ہے، یا کھوئی ہوئی اجرت اور منافع کے ساتھ ساتھ مائیکرو اکنامک سطح پر ذاتی آمدنی یا روزگار کا مجموعہ ہے۔ روز نے مزید کہا، ’’مندرجہ بالا تین زمروں میں انسانی بدحالی شامل نہیں ہے، جیسے بجلی یا صاف پانی کے بغیر رہنے والے لوگوں کی تعداد‘‘۔

امریکہ میں این او اے اے سیٹلائٹ اینڈ انفارمیشن سروس کے پبلک افیئرز آفیسر جان بیٹ مین کا بھی کہنا ہے کہ بہت سے اخراجات کا شمار نہیں کیا جاتا۔ ان میں قدرتی سرمائے یا ماحولیاتی انحطاط، ذہنی یا جسمانی صحت کی دیکھ بھال سے متعلق اخراجات اور گم شدہ سپلائی چین کی قیمت شامل ہو گی۔


اعداد و شمار کتنے درست ہیں؟

روز کے مطابق کسی آفت کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ اکثر چند دنوں کے اندر لگایا جاتا ہے لیکن بعد میں جب مزید اعداد و شمار دستیاب ہوتے ہیں تو وہ بہتر ہو جاتے ہیں، ’’ان ابتدائی تخمینوں میں اکثر تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے، جیسے سڑکوں، پلوں اور یوٹیلیٹیز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‘‘

روز کہتے ہیں کہ مصنوعی سیاروں اور جاسوس ہوائی جہازوں کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر ایسے اندازے زیادہ بہتر ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول اس کے علاوہ تین اور عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی غور طلب بات ایسی آفات کی وجہ سے سپلائی چین کو ہونے والا نقصان ہے۔ مثال کے طور پر تائیوان میں زلزلوں نے ماضی میں سیمی کنڈکٹر فیکٹریوں کو نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میں امریکہ اور دیگر ممالک میں الیکٹرانکس کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔


دوسرا یہ کہ کسی آفت کے بعد کاروبار کتنی جلدی اور موثر طریقے سے اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں، جیسے کہ منتقلی یا کم پانی اور بجلی کا استعمال۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ماہرین کسی آفت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنے کے اس طریقے کو "مطابقت" قرار دیتے ہیں۔

تیسرا یہ کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو آفت زدہ علاقوں میں رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے طور پر یا حکومت کے انخلاء کے احکامات کے ذریعہ ایسا کرنے پر مجبور ہونے کے بعد علاقے سے بھاگ جاتے ہیں تو مقامی معیشت اپنی لیبر بیس کھو دیتی ہے اور سامان اور خدمات کی طلب میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ ترکی جیسے ملک میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جب لوگ ان مقامات میں کام پر واپس آنے سے ڈریں گے، جہاں وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔


غریب زیادہ متاثر ہوتے ہیں

روز کہتے ہیں کہ قدرتی آفات کے نقصانات کا تخمینہ اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے یا کم اندازہ لگایا جاتا ہے۔ وہ اس کی وجہ سیاسی عوامل کو قرار دیتے ہیں۔ روز نے اس کی وضاحت کچھ یوں پیش کی کہ کچھ لوگ زیادہ امداد اور معاوضہ حاصل کرنے کے لیے مبالغہ آرائی کرتے ہیں تو کچھ حکومتیں شرمندگی سے بچنے کے لیے اخراجات کو کم بتاتی ہیں کیونکہ وہ اپنی پالیسیاں درست ثابت کرنے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔

انشورنس کمپنی سوئس ری کے مطابق تباہ کاریوں کے طویل مدتی ترقیاتی اثرات عام طور پر اس بات پر منحصر ہوتے ہیں کہ براہ راست نقصانات بالواسطہ اور ثانوی اخراجات کا باعث کیسے بنتے ہیں اور یہ کہ نقصانات کو برداشت کرنے کی ملک کی معاشی صلاحیت کیسی ہے؟


گزشتہ 30 سالوں میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ عام طور پر غریب لوگ ہی آفات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ غریب لوگ پر خطر علاقوں میں رہتے ہیں جبکہ ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے کہ وہ تدابیر اختیار کر سکیں یا تعمیر نو یا بحالی۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے مطابق کمزور گورننس، بڑھتی ہوئی غربت، حیاتیاتی تنوع کا نقصان، تباہ شدہ ماحولیاتی نظام اور بے ترتیب اربن آئزیشن قدرتی آفات کی صورت میں نقصانات کو بڑھا دینے کی وجوہات ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔