آئن اسٹائن نے بیلجیم میں ایک مفرور کی زندگی کیسے گزاری؟

نازی جرمنوں نے برلن کے قریب آئن اسٹائن کے گھر کو بھی نشانہ بنایا اور ان کا سارا سامان ضبط کر لیا۔ نازیوں کی طرف سے سر کی قیمت مقرر کیے جانے کے باجود آئن اسٹائن نے ساحل سمندر پر واک کرنا ترک نہیں کیا۔

آئن اسٹائن نے بیلجیم میں ایک مفرور کی زندگی کیسے گزاری؟
آئن اسٹائن نے بیلجیم میں ایک مفرور کی زندگی کیسے گزاری؟
user

Dw

دنیا کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک البرٹ آئن اسٹائن اپنے نظریہ عمومی اضافیت کے ساتھ ساتھ سائنسی میدان میں بہت سے کارناموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں لیکن ان کی زندگی کا ایک دور ایسا ہے، جس سے اب بھی اکثر لوگ ناواقف ہیں۔جدید طبیعیات کے دو اہم ترین ستونوں ''تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی‘‘ اور ''کوانٹم فزکس‘‘ جیسے اہم ترین نظریات پر سنگ میل کی حثیت رکھنے والا کام سر انجام دینے والے سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن ایک جرمن نژاد امریکی طبیعیات دان تھے۔ ان کی پیدائش 1879ء میں جرمن شہر اُلم کے ایک یہودی گھرانے میں اور ان کا انتقال 1955ء میں پرنسٹن نیو جرسی میں ہوا۔

جب ایڈولف ہٹلر 1933ء کے اوائل میں اقتدار میں آئے تو آئن اسٹائن پہلے ہی سے امریکہ میں اپنا نظریہ اضافیت پڑھا رہے تھے۔ ہٹلر کے دور میں نازی جرمنوں نے یہودیوں کا قتل عام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف تشدد کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ نازیوں نے برلن کے قریب آئن اسٹائن کے گھر کو بھی نشانہ بنایا اور ان کا سارا سامان ضبط کر لیا۔


بحر اوقیانوس کے اُس پار سے یورپ واپسی پر آئن اسٹائن اپنی دوسری بیوی ایلسا کے ساتھ مارچ 1933ء میں بیلجیم میں اترے۔ وہ بہت خوفزدہ تھے کہ جرمنی واپسی پر نہ جانے نازی ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ آئن اسٹائن نے بیلجیم کی پولیس کی نگرانی میں ڈی ہان میں چھ ماہ گزارے۔

آئن اسٹائن کے نقش قدم ڈھونڈنے والی اے ایف پی ٹیم کی رہنمائی کرتے ہوئے بیلجیئم کی ایک رہائشی 78 سالہ بریگیٹے ہوخس کا کہنا تھا،''میری والدہ آئن اسٹائن کو اس وقت سے اچھی طرح جانتی تھیں جب وہ جوان تھیں۔ وہ ہرصبح ساحل سمندر پر چہل قدمی کرتے تھے۔‘‘ ہوخس فیملی کئی دہائیوں تک اس علاقے میں ایک ہوٹل اورکئی رہائشی عمارتوں کی مالک تھی۔ آئن اسٹائن نے ان میں سے ایک ولا سیویارڈے کرائے پر لے رکھا تھا۔


بریگیٹے ہوخس نے بتایا کہ آئن اسٹائنکا معمول یہ تھا کہ وہ چہل قدمی کے بعد ہوٹل کے ٹیرس پر بیٹھ کر کافی پیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت البرٹ نامی ایک اور شخصیت بہت مشہور تھی اور وہ تھے بیلجیم کے بادشاہ البرٹ اول جن کی بیوی ایک باویرین شہزادی تھیں۔ بریگیٹے کے بقول،''بیلجیم میں آئن اسٹائن کی مختصر جلاوطنی میں بادشاہ البرٹ اول کا بھی بڑا کردار تھا۔ البرٹ اول نے آئن اسٹائن کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جرمنی واپس بالکل نہ جائیں۔‘‘

آئن اسٹائن شاہی جوڑے کو جانتے تھے کیونکہ انہوں نے برسلز میں ہونے والی کانگریس میں حصہ لیا تھا۔ ملکہ الزبتھ کے ساتھ ساتھ وہ جرمن زبان اور وائلن کی محبت میں گرفتار تھے۔ یہاں تک کہ ملکہ اور وہ ایک ساتھ وائلن بجاتے تھے۔ بیلجئیم کے جس علاقے میں آئن اسٹائن رہ رہے تھے اُسے ''فلینڈرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں اُن کے ایڈونچر نے بیلجیم کے اسکرین رائٹر روڈی میل کی ایک مزاحیہ فلم بنانے پر اکسایا، جس نے اس سائنسدان کی مختصر جلاوطنی کو''ایک سنسنی خیز‘‘ کہانی کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئن اسٹائن "موت کے خطرات" کی وجہ سے پولیس کی نگرانی میں تھے۔


روڈی میل نے جب یہ نوٹ کیا کہ آئن سٹائن کو 'موت کا خطرہ‘ لاحق ہے اس لیے وہ پولیس کی نگرانی میں ہیں، تو انہوں نے آئن اسٹائن کی سنسنی خیز زندگی پر 1933ء میں ایک مزاحیہ میگزین شائع کیا، جس کا عنوان فرانسیسی زبان میں Le Coq-sur-Mer تھا۔

مصنف نے اس میں اپنے مرکزی کردارمیں ایک سنہرے بالوں اور گھنی مونچھوں والے جاسوس کی عکاسی کی تھی، جس کے ہاتھ میں پستول ہے اور جسے 'تھرڈ رائش‘ یا نازی جرمن ریاست نے ایٹم بم پر تحقیق کے لیے آئن اسٹائن کو اغوا کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ آئن سٹائن کی مشہور دریافتوں مثلاً E=mc2 سے بڑے پیمانے پر مستقبل کے جوہری انشقاق کے تصور کی بنیاد پڑی۔ حالانکہ وہ خود تمام عمرامن پسند رہے۔


سر کی قیمت

بہت جلد ہی نازیوں نے آئن اسٹائن کو ''حکومت دشمن‘‘ قرار دیتے ہوئے اُن کے کے سر کی قیمت اُس وقت پانچ ہزار ڈالر مقرر کی، جو آج کے حساب سے ایک لاکھ دس ہزار ڈالر کے قریب بنتی ہے۔ اگست 1933ء میں جب جمہوریہ چیک میں ایک یہودی محقق کو نازیوں کے حکم پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تو آئن اسٹائننے سوچا کہ وہ بیلجیم میں مزید محفوظ نہیں رہے۔ اس کے بعد وہ بیلجیم کے بندرگاہی شہر اوسٹینڈ سے لندن چلے گئے، جہاں سے وہ امریکہ ہجرت کر گئے۔

آئن اسٹائن نے شاید اپنی زندگی سے متعلق بنائی گئی بہت سی کہانیوں کی تعریف کی ہو گی۔ اسی لیے شمالی بیلجیم کے ساحلی علاقے ڈی ہان میں نصب ان کے مجسمے کے ساتھ ان کے مشہور ترین اقوال میں سے ایک ''تخیل علم سے زیادہ اہم ہے‘‘ جلی حروف میں کندہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔