کراچی کی بارش بلدیاتی انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے تمام دعوے بہا کر لے گئی

کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے قبل سندھ حکومت نے شہر میں بس سروس کا افتتاح کیا اور مختلف ترقیاتی کاموں کے علاوہ سڑکوں کی مرمت کی گئی۔ تاہم حالیہ بارش پیپلز پارٹی کے تمام دعوے اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

صوبے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ 15 سالوں سے برسراقتدار ہے۔ ناقدین کا تاہم کہنا ہے کہ کراچی کے بنیادی ڈھانچے، پبلک ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی کے مسائل کو حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

کراچی کبھی عروس البلاد ہوا کرتا تھا، لیکن اب اس شہر کی شناخت ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ابلتے گٹر اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی جانے والی کثیرالمنزلہ عمارتوں نے اس شہر کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر شہری یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ملک کے خزانے میں 70 فیصد ریونیو دینے والا شہر کراچی کیوں لاوارث ہے؟


شہری مسائل پر توانا آواز

کراچی کے گھمبیر مسائل اور ابتر صورتحال پر سب سے زیادہ صدائے احتجاج دائیں بازو کی جماعت اسلامی بلند کر رہی ہے۔ کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہر تباہ حال اور بدترین مسائل سے دوچار ہے اور اس شہر کو برباد کرنے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے، ''بلدیاتی انتخابات سے قبل بسیں لانا، پارکوں کا افتتاح کرنا ووٹ کے حصول کا ذریعہ ہے، ہر حکومت نے کراچی کی تعمیر و ترقی کے جھوٹے وعدے اور معاہدے کیے، ایم کیو ایم کی لوٹ مار کے بعد تحریک انصاف نے اس شہر کا مینڈیٹ حاصل کرنے کا دعوی کیا۔‘‘ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کے پانی کا کوٹہ کم کر کے بحریہ ٹاؤن کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کا موقف

صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت اور سابق صدر آصف علی زرداری ہر حال میں ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، ''پیپلز پارٹی کراچی شہر کے ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور پیپلز بس سروس انہی مثبت کاموں کا آغاز ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر 240 جدید ایئر کنڈیشن بسیں ہیں، جنہیں بڑھا کر 500 کر دیا جائے گا۔ شرجیل میمن کے بقول ایم کیو ایم کو حکومت کے اچھے کاموں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے، ''اگر انہیں اس شہر سے اتنی دلچسپی اور محبت تھی تو پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی منصوبہ کیوں نہیں لائے، جنرل مشرف کے دور میں ان کے پاس وسائل اور اختیارات سب تھے مگر انہوں نے اس شہر کے لیے کوئی مثبت کام نہیں کیا۔‘‘


ایم کیو ایم کیا کہتی ہے؟

متحدہ قومی موومنٹ جو تحریک انصاف کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اتحادی بنی ہے۔ ایک تحریری معاہدے کے بعد یہ جماعت خوش تھی کہ صوبائی حکومت بلدیاتی قوانین میں ترمیم کر کے بہت سارے وہ اختیارات جو صوبائی حکومت کے پاس ہیں میئر کو منتقل کر دے گی۔ مگر اب ایم کیو ایم کا شکوہ ہے کہ آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی ضمانت کے باوجود صوبائی حکومت ایم کیو ایم سے ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔

ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی جاوید حنیف نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اب بھی تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے، ''بارشوں کے بعد شہر میں بجلی، پانی، سیوریج کے مسائل سب کے سامنے ہیں۔ 70 فیصد ریونیو دینے والے شہر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کے نوجوانوں کے لیے نوکریاں نہیں ہیں، ''ایم کیو ایم کا شکوہ اپنی جگہ مگر انتخابی مصلحتوں کی وجہ سے شہری علاقوں کی یہ جماعت صوبائی حکومت کے خلاف توانا آواز بلند کرنے سے گریز کر رہی ہے۔‘‘


ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کا حصہ بننے کے بعد ایم کیو ایم سیاست کی بند گلی میں آگئی ہے۔ ماضی میں الطاف حسین کی وجہ سے یکجا رہنے والی ایم کیو ایم اب کئی دھڑوں میں تقسیم ہے اور کوششوں کے باوجود ایم کیو ایم کے دھڑے ایک سیاسی پلیٹ فام پر یکجا نہیں ہو پا رہے۔

کراچی شہر کی سڑکوں پر جدید بسیں

رواں مہینے صوبائی حکومت نے پیپلز بس سروس کے نام سے کراچی کی سڑکوں پر جدید بسیں لانا شروع کر دیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات بلدیاتی انتخابات سے قبل مزید تنقید اور شرمندگی سے بچنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔


'بس سروس ناکام ہو جائے گی‘

ناقدین کے بقول جن ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر یہ بسیں چلیں گی ان کی مخدوش حالت کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیپلز بس سروس بھی جلد ناکام ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ حالیہ بارشوں نے کراچی شہر کی سڑکوں کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ حال ہی میں تعمیر ہونے والی بیشتر شاہراہیں کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہیں، برساتی نالے کچرے سے بھرے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان نالوں کی صفائی اور تعمیر کا ٹھیکہ عسکری ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن FWO کے پاس تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔