ترکی میں ہیڈ اسکارف خواتین کے لباس کا ایک سیاست زدہ حصہ

ترکی کی سیکولر اپوزیشن مسلم خواتین کے ہیڈاسکارف کو لبرل بنانے اور حکومت کے خلاف سیاسی گُول اسکور کرنے کی ہر ممکن کوشش میں ہے۔

ترکی میں ہیڈ اسکارف خواتین کے لباس کا ایک سیاست زدہ حصہ
ترکی میں ہیڈ اسکارف خواتین کے لباس کا ایک سیاست زدہ حصہ
user

Dw

ترکی میں، سیکولر اپوزیشن مسلم خواتین کے سر پر اسکارف پہننے کو آزادی کے برخلاف سمجھتے ہوئے انہیں جدید اور آزاد خیال بنانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اپوزیشن ایک گول اسکور کرنا چاہ رہی ہے تاہم یہ ترک صدر ایردوان کے ہاتھوں کھیلنے کے مترادف ہے۔ ترکی میں مرد ایک بار پھر خواتین کے سر کے پوشاک کے بارے میں بحث کر رہے ہیں۔

ترک معاشرے کو شاید ہی کوئی دوسری سیاسی علامت اس حد تک تقسیم کرنے کا سبب بنی ہے جتنا کہ خواتین کا ہیڈ اسکارف۔ لبرل یا آزاد خیال طبقہ کئی دہائیوں سے ہیڈ اسکارف کو جدید اور سیکولر ترک ریاست کے لیے ایک خطرہ سمجھتا رہا ہے۔ اس لیے بھی کہ ترک ریاست کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک خود ہیڈ اسکارف کو اسلام کی پسماندہ شکل کا مظہر سمجھتے تھے۔


1999 ء میں جب ایک رکن پارلیمان میروے کاواکچی ہیڈ اسکارف پہنے پارلیمان میں داخل ہوئیں تو ایک اسکینڈل بن گیا۔ اُس وقت کے سوشل ڈیموکریٹ وزیر اعظم بُلنت ایچیوت نے چیخ کر کہا تھا،''یہ ترک ریاست کو چیلنج کرنے کی کوئی جگہ نہیں۔‘‘ میروے کاواکچی 18 اپریل 1999 ء میں ترکی کی Virtue Party ''فضیلت پارٹیسی‘‘ کی نائب صدر منتخب ہوئی تھیں۔ 2017 ء تا مئی 2020 ء میروے ملیشیا میں ترکی کی سفیر کی حیثیت سے تعینات رہیں۔

ہیڈ اسکارف کو بطور شناخت ایک بار پھر زور و شور سے 2007 ء میں اُس وقت زیر بحث لایا گیا جب عبداللہ گُل ترکی کے صدر منتخب ہوئے کیونکہ ان کی اہلیہ ہیڈ اسکارف پہنتی تھیں اور جدید ترکی ترکی میں پہلی بار ایک ایسا صدر منتخب ہوا تھا جس کی شریک حیات ہیڈ اسکارف کا استعمال کرتی تھیں۔ ترکی کے سیکولر طبقے کے لیے ہیڈاسکارف ایک شجر ممنوعہ جبکہ حکمران جماعت اے کے پی کے اسلام پسندوں کے لیے ایک لازمی امر تھا۔


15 سال پہلے تک، ترکی کی طالبات کو یونیورسٹی میں داخل ہونے کے لیے اپنے سر سے اسکارف اتارنا پڑتا تھا، یعنی انہیں ہیڈ اسکارف کے ساتھ تعیلم اداروں میں داخل ہونے کی بالکل اجازت نہیں تھی۔ پبلک سیکٹر میں ملازمت کرنے والی خواتین کو بھی طویل عرصے تک ہیڈ اسکارف پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ دائیں بازو کی پاپولسٹ اے کے پی جماعت اب 20 سال سے اقتدار میں ہے اور اس نے سر پر اسکارف پر پابندیوں کو بڑی حد تک ختم کر دیا ہے۔

سیکولر سیاستدان اب ووٹ کی تلاش میں

ترکی کے سیکولر سیاسی رہنماؤں کو اب اپنے ووٹ بینک مضبوط کرنا ہیں۔ اب وہ ہیڈ اسکارف کا سہارا لینا چاہ رہے ہیں۔ دو ہفتے قبل ترکی کی جزب اختلاف کے رہنما کمال کیلچ دارؤگلو نے ایک حیران کن اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی ہیڈ اسکارف پہننے کے حق کو قانونی بنانا چاہتی ہے۔ ان کی پارٹی ''کمالسٹ سوشل ڈیموکریٹ‘‘ سی ایچ پی ہے جو ترک جمہوریہ کی بانی جماعت ہے اور روایتی طور پر ہیڈ اسکارف کی مخالف رہی ہے۔


ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ کمال کیلچ دارؤگلو کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ترکی میں انتخابی کامیابی خواتین کے ہیڈ اسکارف پہننے کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ جون 2023 ء کے انتخابات میں وہ موجودہ صدر رجب طیب ایردآن کو چیلنج کرنے کے لیے اپوزیشن کے امیدوار بننا چاہتے ہیں تاہم یہ معاملہ خاصا پیچیدہ ہے۔ ایک طرف اپوزیشن جماعتیں تاحال کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچیں۔ وہ اب بھی ایک مشترکہ امیدوار کی تلاش میں ہیں جس کو آنے والے انتخابات میں امیدوار کے طور پر مقابلے میں شرکت کا موقع دیا جائے گا، اس پر ابھی بھی غور ہو رہا ہے کہ کیا وہ کمال کیلچ دارؤگلو ہوں گے؟

ایردوآن کے لیے ایک اور موقع

دوسری طرف رجب طیب ایردوآن نے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی چال کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ہیڈ اسکارف کا مجوزہ قانون کافی نہیں ہے، ان کی پارٹی آئین میں اس بارے میں تبدیلی لانا چاہتی ہے اور اس کے ذریعے ترکی کے آئین میں یا بنیادی قانون میں سرپر اسکارف پہننے کا حق شامل کرنا چاہتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل کا ماخذ حقیقی معنی میں کیا ہونا چاہیے یہ ہنوز واضح نہیں تاہم یہ خبر ضرور عام ہو گئی ہے کہ ایردوآن آئین میں 'صنفی غیر جانبدار اصطلاح‘ یعنی 'میاں بیوی ‘ کی اصطلاح کو ختم کر کے اسے 'مرد اور عورت‘ کی اصطلاح میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی میں ہم جنس جوڑوں کو شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن منصوبہ بند آئینی آرٹیکل ایک اضافی علامتی ہم جنس پرست معنی کا حامل ہوگا۔


عورتوں کی پشت پر مردوں کا سیاسی کھیل

ترکی میں بہت سی خواتین عام طور پر موجودہ بحث کو مسترد کر رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی بحث و تکرار غلط سمت چل پڑے گی۔ نہال بینگزو کاراچا ایک صحافی ہیں، انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہ ضروری ہے کہ یہ حقوق اور آزادی اس بات پر منحصر نہ ہو کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات جیتتی ہے یا نہیں۔‘‘ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک خاتون کپتان کہتی ہیں کہ مردوں کو خواتین کے نجی معاملات پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے بقول،''اس کی بجائے انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہم اب مساوات کی پالیسی پر عمل درپمد کرنے جارہے ہیں جو اس امر کو یقینی بنائے گا کہ سیاست عورتوں کے لباس پہننے کے انتخاب میں مداخلت نہیں کرے گی۔ یہی صیحح پیغام ہو سکتا ہے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی کسی بھی عورت کے لیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔