آدھا سچ، جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے

روز نت نئے انداز میں پیسے لوٹنے کے طریقے ساری دنیا میں عام ہوتے جارہے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا سے کوئی بھی معلومات حاصل کرنا اور کچھ ردوبدل کر کے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا کوئی مشکل نہیں رہا۔

آدھا سچ، جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے
آدھا سچ، جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے
user

Dw

گزشتہ ہفتے جرمنی کے ایک شہر بریمرہافن کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک عربی گھرانے میں پولیس کے اہلکار اور بچوں کے فلاحی ادارے کے کچھ لوگ جمع ہیں۔ وہ دو بچوں کو اپنے ساتھ لے جارہے ہیں۔ چھوٹا بچہ خوف سے بلبلا کے رو رہا ہے اور گھر کی خواتین مزاحمت اور اونچی آواز میں کچھ بحث کر رہی ہیں۔ یہ ویڈيو تمام والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنی کہ آخر کیا ماجرہ ہے؟ یہ ویڈیو بذات خود جتنی پریشان کن تھی اس سے کہیں زیادہ اس کے ساتھ لکھی جانے والی تحریر تھی۔ کہانی کچھ یوں بیان کی گئی تھی کہ بچوں کا فلاحی ادارہ پولیس کی مدد سے بچوں کو والدین سے محض اس لیے دور لے جا رہا ہے کیونکہ ان کی کسی ٹیچر نے یہ شکایت کی ہے کہ ان بچوں کو گھر میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہم جنس پرستی اسلام کے خلاف ہے اور یہ بچے سکول میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی بہت سے مسلمان گھرانوں میں غصہ، بے چینی، خوف اور بے یقینی کی کیفیت پائی گئی۔ کچھ ہی لمحوں میں اس ویڈیو کے نیچے سینکڑوں کمنٹ لکھے گئے اور ویڈیو کو آگے سے آگے شیئر کیا گیا۔ یہاں تک کہ ایک پاکستانی سابقہ وزیر نے بھی اس ویڈیو کو ٹویٹر پر شیئر کیا۔ چونکہ یہ ویڈیو کسی مستند ذریعے سے شیئر نہیں کی گئی تھی اس لیے اگر کسی نے اس کے جعلی ہونے یا کہانی سچی نہ ہونے کے بارے میں سوال کیا تو زیادہ تر کو جواب میں ہم جنس پرستی اور نسل پرستی کا حمایتی کہہ کر خاموش کروا دیا گیا۔

پولیس نے تحقیقات کی یقین دہانی کروائی اور پاکستانی کمیونٹی کے کچھ نمائندوں نے بھی فلاحی ادارے سے تفصیلی ملاقات کی۔ ایک ترکی نژاد اسمبلی ممبر نے آخر کار سچ سے پردہ فاش کیا اور پاکستانی کمیونٹی کے ایک مقبول فیس بک گروپ پر تمام تفصیلات شیئر کی گئیں۔ حقیقت من گھڑت کہانی سے اس قدر مختلف نکلے گی یہ شاید پریشان والدین سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ایک عربی جوڑے میں طلاق کے بعد کورٹ نے دونوں بچوں کو ماں کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا اور باپ کی طرف اس کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں پولیس اور فلاحی ادارے کو یہ قدم اٹھانا پڑا۔ اس ویڈیو میں جس بچے کو روتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے، وہ بیمار ہے اور خوف کی وجہ سے رو رہا تھا جبکہ بڑا بچہ آرام سے ساتھ چل پڑا تھا۔


میرے خیال سے پولیس اور ادارے کے اہلکاروں کو نرم رویہ ضرور اختیار کرنا چاہیے تھا مگر اس پر احتجاج یا شکایت کی بجائے جو جعلی کہانی بنائی گئی وہ درحقیقت ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے، جس کا ہم ادارک نہیں کر پار ہے۔ اس واقعے سے مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی وہ کہانی یاد آ گئی جب لکڑ ہارے نے شیر آیا شیر آیا کی آواز لگا کر سارے گاؤں کو اکھٹا کیا اور یہ جب گاؤں والوں کو اس کے جھوٹ کا علم ہوا تو اصل میں شیر آنے پر بھی اس پر یقین نہ کر سکے اور کوئی مدد نہ کی۔ یورپ میں رہتے ہوئے ایسے بہت سے ایسے مسائل ہیں، جن کے بارے میں بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ وہ ان کی اپنی مذہبی تعلیمات سے مختلف ہیں۔ ہم جنس پرستی بھی ایک اہم نقطہ ہے اور اس کی مقبولیت بہت سے مسلمانوں کے لیے تشویش کا باعث بھی ہے۔ مذہبی آزادی سے ہم اپنے بچوں کی تربیت اپنے مطابق کرتے ہیں، اپنی مساجد میں بھی لے کر جاتے ہیں اور کسی بھی زیادتی کی صورت میں احتجاج کا حق بھی رکھتے ہیں۔ ایسی جعلی خبریں اور من گھڑت افواہیں ہمارے اپنے مقصد کو گہرا نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ ہم اعتماد کھو دیں اور اصل مصیبت کی صورت میں کچھ بھی نہ کر پائیں۔

یہ جعلی خبریں صرف کسی ایک ملک یا قومیت تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ بیماری جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے بلا تصدیق کوئی بھی خبر آگے پھیلانا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ساری دنیا اسی میں مصروف ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سن 2019 سے 2020 تک لاتعداد جعلی خبریں اور علاج اندھا دھند ہر جگہ آگے سے آگے پھیلائے گئے، جن کے بہت تکلیف دہ اور دور رس نتائج سامنے آئے۔ بلیچ پینے سے بیماری سے تحفظ اور موبائل نیٹ ورک کے استعمال سے بیماری کے پھیلاؤ میں تیزی وہ مضحکہ خیز خبریں تھیں جو یورپ میں بھی عام پائی گئیں۔


بیشتر ممالک میں حکومت اور عوام کے درمیان خليج پیدا ہوئی۔ بہت سے طبقات نے ڈاکڑوں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ کووڈ 19 کے شروع ہوتے ہی خوف و ہراس پھیلایا گیا۔ بہت سے لوگوں نے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے لاک ڈاؤن پر عمل کیا، بزرگوں اور بیماروں کی مدد کی مگر اشیاء کی کمی اور ویکسین سے متعلق بے بنیاد کہانیاں ہمیشہ سبقت لے جاتی رہیں۔

سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر الزام لگانا اور جذباتی عوام کا مزید مصالحہ شامل کرکے آگے سے آگے پھیلانا ایک عام عمل ہے۔ اسی طرح کسی نہ کسی سیلیبریٹی کی ذاتی زندگی پر تبصرہ ساری دنیا میں زیر بحث رہتا ہی ہے۔ یہاں تک کہ کسی بھی مشہور شخصیت کی موت کی جعلی خبر پھیلنے میں کوئی وقت نہیں لگتا۔ عام ذرائع ایک دو دن میں تردید تو کر دیتے ہیں مگر یہ جعلی خبریں عزیز واقارب کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ انتشار اس قدر تیزی سے پھیلتا ہے کہ سچ کی حقیقت کھلنے تک گاؤں کے گاؤں تباہ کر دیتا ہے۔


روز نت نئے انداز میں پیسے لوٹنے کے طریقے ساری دنیا میں عام ہوتے جارہے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا سے کوئی بھی معلومات حاصل کرنا اور کچھ ردوبدل کر کے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا کوئی مشکل نہیں رہا۔ مختلف تنظیمیں خبروں کی حقیقت جاننے کے لیے کوئی نہ کوئی نیا حل پیش کر رہی ہیں مگر کوئی بھی اتنا تیز اور آسان نہیں جتنا فیس بُک ٹوئٹر پر شیئر کرنا یا واٹس ایپ پر آگے بھیجنا ہے۔ واحد حل شاید انفرادی کوشش ہے اور یہی حل شاید سب سے مشکل بھی ہے۔ جذبات میں آکے غلط خبر آگے پھیلانے سے عدم اعتماد کی فضا پھیلتی چلی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی حالات پر بات کرنے سے بھی اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ زیادہ تر تصاویر اور خبریں جعلی، خود ساختہ یا کسی اور تاریخ اور مقام کی ہیں۔ اسی بحث میں اصل مقصد ایسے کھو جاتا ہے جیسے اس کی کوئی وقعت تھی ہی نہیں۔ حقیقت کو سازش اور سازش کو حقیقت بنانا من پسند مشغلہ بن چکا ہے اور افسوس یہ ہے کہ اس کی روک تھام ناممکن ہوتی جارہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔