بھارتی ریاست گجرات کے اسکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم لازمی

بھارتی ریاست گجرات میں بی جے پی کی حکومت نے تمام اسکولوں میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کی تعلیم لازمی کر دی ہے۔ اس کا مطالبہ ہندو قوم پرست تنظیم وشو ہندو پریشد نے کیا تھا۔

بھارتی ریاست گجرات کے اسکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم لازمی
بھارتی ریاست گجرات کے اسکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم لازمی
user

Dw

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست گجرات کے وزیر تعلیم جیتو واگھانی نے ریاستی اسمبلی میں جمعرات سترہ مارچ کو اعلان کیا کہ ریاست کے تمام اسکولوں میں فی الحال چھٹی سے بارہویں جماعت تک کے طلبا و طالبات کے لیے بھگوت گیتا کی تعلیم لازمی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ''بھگوت گیتا میں بیان کردہ اقدار اور اصولوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنا ہے۔‘‘

ریاستی وزیر تعلیم نے کہا کہ اس حکم کا اطلاق تمام سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں پر ہو گا۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ وفاقی حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کے عین مطابق ہے جس میں ''جدید اور قدیم ثقافت و روایات کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ طالب علم بھارت کی عظیم اور متنوع ثقافت پر فخر محسوس کریں۔‘‘


گجرات حکومت کے اس فیصلے کے مطابق طلبہ کو بھگوت گیتا نہ صرف اسکولوں میں پڑھنا ہو گی بلکہ اسے کلاسیں شروع ہونے سے قبل طالب علموں کی اسمبلی کا حصہ بھی بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ طالب علموں کو راغب کرنے کے لیے بھگوت گیتا پر مبنی مباحثوں، مضمون نویسی، تصاویر اور کوئز وغیرہ کے مقابلے بھی کرائے جائیں گے۔

حکومتی فیصلے کی مخالفت

کئی مختلف حلقوں نے گجرات حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اپوزیشن کانگریس پارٹی نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت اس طرح کے فیصلے کے ذریعے اساتذہ اور اسکولوں کی کمی جیسے حقیقی تعلیمی مسائل سے عام لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔


کانگریس کے ترجمان منیش دوشی نے کہا کہ بھگوت گیتا کو اسکولوں میں نافذ کرنے والوں کو چاہیے کہ پہلے وہ خود اس کتاب سے کچھ سبق سیکھیں۔ انہوں نے کہا، ''ایک ایسے وقت پر جب گجرات کے دیہی علاقوں میں چھ ہزار اسکول صرف ریاضی اور سائنس کے اساتذہ کی کمی کے باعث بند کیے جا رہے ہیں، حکومت بھگوت گیتا کو اسکولوں میں نافذ کرنے جیسے فیصلے کر کے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش میں ہے۔‘‘

مسیحی کارکن فادر سیڈرک پرکاش نے کہا کہ اگرچہ یہ فیصلہ قطعی غیر متوقع نہیں لیکن یہ یقینی طورپر حیرت انگیز ہے۔ انہوں نے اس فیصلے پر نظرثانی کی اپیل بھی کی۔ فادر سیڈرک پرکاش نے کہا، ''ہر مذہب یا مذہبی کتاب کا مطالعہ اچھی بات ہے اور ہر کوئی اس کا خیرمقدم کرتا ہے۔ لیکن سرکاری اسکولوں میں صرف بھگوت گیتا کو نافذ کرنے سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت بھارت کے سیکولر ڈھانچے کو توڑنا چاہتی ہے اور یہ فیصلہ 'ہندتوا راشٹر‘ کے قیام کی طرف ایک اور قدم ہے۔‘‘


فیصلہ وشو ہندو پریشد کا مطالبہ تھا

ہندو قوم پرست تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بھگوت گیتا کو پورے بھارت کے تمام اسکولوں میں نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس تنظیم نے صرف اسکولوں کے طالب علموں کے لیے ہی نہیں بلکہ اسے اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے بھی لازمی کر دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

وی ایچ پی کا کہنا ہے کہ بھگوت گیتا کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے تمام حکومتی اداروں میں وقفے وقفے سے خصوصی پروگرام منعقد کیے جانا چاہییں تاکہ ملک میں 'اخلاقی قدروں کے زوال‘ کو روکا جا سکے۔


بھارتی وزیر تعلیم نے ملکی پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ جو ریاستی حکومتیں چاہتی ہیں کہ ان کے اسکولوں میں طلبا و طالبات بھگوت گیتا پڑھیں، وہ ایسا کر سکتی ہیں کیونکہ تعلیم کا شعبہ ریاستوں کے دائرہ اختیار میں ہے۔

سوشل میڈیا پربھی ردعمل

گجرات حکومت کے فیصلے پر سوشل میڈیا پر بھی دلچسپ ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ترتھانکر دتّا نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا، ''اسکولوں کے نصاب میں بھگوت گیتا کو شامل کرنے کا طلبہ کو بھارتی تہذیب سے آگاہ کرنے کی کوششوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ سب کچھ 2024ء کے عام انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ بہت سے لوگ گیتا پر ہاتھ رکھ کر سچ بولنے کی قسم تو اٹھاتے ہیں لیکن جھوٹ بڑی روانی سے بولتے ہیں۔‘‘


اسی طرح راکیش شرما نامی ایک صارف نے لکھا، ''اب گجرات کے لوگ اور بھارتی کمپنیاں ملازمت کے لیے بھگوت گیتا کی بنیاد پر انٹرویو لیا کریں گی۔ وہ سوال پوچھیں گی کہ بھگوت گیتا کے ساتویں باب میں کیا ہے، جس سے مینجمنٹ میں مدد مل سکتی ہے؟‘‘

شاہ شکیل نامی ایک اور صارف نے لکھا، ''16مارچ کو ایک عدالت نے اسکولوں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا اور اگلے ہی دن گجرات نے بھگوت گیتا کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس عمل کے لیے ریاکاری بہت ہی معمولی لفظ ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔