کیا کچھ نہیں دیا گوا کی مسیحی برادری نے کراچی کو

ایک صدی پرانی کراچی گوان ایسوسی ایشن کی عمارت سر اٹھائے آج بھی اس عہد رفتہ کی یاد دلاتی ہے، جب انیسویں صدی میں گوا سے نقل مکانی کر کے آنے والی اس مسیحی کمیونٹی نے کراچی میں قدم رکھے۔

جدید کراچی کی ’بانی‘ گوان کمیونٹی
جدید کراچی کی ’بانی‘ گوان کمیونٹی
user

Dw

کراچی کے گورا قبرستان میں مقدس صلیب کے سائے میں بیٹھے تریپن سالہ پیٹرک جیمز کے آباء و اجداد گوا سے نقل مکانی کر کے کراچی آئے تھے۔ پیٹرک جمیز کے مطابق انہوں نے بہت سارے پادریوں کے ہمراہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ عمر کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی والدہ کی خدمت میں گزارا۔ ان کی والدہ کا انتقال 2015 ء میں ہوا، یہی وجہ ہے کہ پانچ بھائیوں اور دو بہنوں میں صرف پیٹرک نے ہی ابھی تک شادی نہیں کی۔

معاشی زبوں حالی کا شکار پیٹرک جیمز کہتے ہیں، ''میں خداوند کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے زندگی دی، یہ ملک اور یہ زندگی دونوں خداوند کی طرف سے ایک تحفہ ہیں۔‘‘


تنہا پن کا احساس پیٹرک کو پچھلے پینتیس برسوں سے گورا قبرستان لے آتا ہے، جہاں وہ گھنٹوں مقدس سلیب کے نیچے بیٹھ کر اپنے پیاروں کو یاد کرتا ہے۔ گوا برادری کے ایک فعال سماجی کارکن رونالڈ ڈیسوزہ کے مطابق گوا کے مسیحیوں نے 1820ء میں گوا سے نقل مکانی شروع کی۔ انہوں نے مزید بتایا، ''انیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں گوا سے نقل مکانی کرنے والے کم پڑھے لکھے عیسائیوں کے بعد پڑھے لکھے افراد نے بھی یہاں کا رخ کیا۔ انگریزی زبان سے واقفیت کی بناء پر برطانوی راج میں اچھی نوکریاں ان کے حصے میں آئیں۔‘‘

پاکستان میں آباد کیتھولک مسیحیوں کی کل تعداد میں سے گوا سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ان میں سے بہت سارے اب ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ دوران گفتگو پیٹرک نے بتایا، ''صدر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے سارے مسیحی ملک سے باہر چلے گئے ہیں، کوئی امریکا اور کوئی یورپ، وہ لوگ واپس آکر اب یہاں کیا کریں گے۔‘‘


ایک اندازے کے مطابق قیام پاکستان کے وقت تقریبا 20 ہزار گوا کے مسیحیوں میں سے اکثریت کراچی میں آباد تھی۔ لیکن آج ان کی تعداد صرف چھ ہزار سے آٹھ ہزار کے درمیان ہی رہ گئی ہے۔ پاکستان میں آج انہیں بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ کراچی کی ترقی میں بھی اس برادری کے کردار سے اکثریت ناواقف ہی ہے۔

سن 1862ء میں پیدا ہونے والے سنسنّاٹس فیبین ڈی ابیرو کے والد نے گوا سے سندھ 1846ء میں نقل مکانی کی۔ سینٹ پیٹرک سے ابتدائی تعلیم کے بعد ترقی کے زینے طے کرتے کرتے اسسٹنٹ کلکٹر سکھر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ کراچی واپسی کے بعد وہ بلدیہ کے صدر بنے۔ فیبین ڈی ابیرو کو سندھ کی بارہ معتبر شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ اسی دوران انہوں نے شہر کراچی کی ترقی کے لیے بہت سے کام کیے۔ انہوں نے 1908ء میں ایک زمین خریدی جسے بعد میں کراچی کا پہلا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا ٹاؤن شپ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔


اس ٹاؤن شپ کا نام سنسنّاٹس ٹاؤن رکھا گیا۔ اس کی منصوبابندی کرنے والے پیڈروڈی سوزا اور جارج بریٹو تھے۔ ان کی یہ کاوش اپنے دور میں شہری منصوبہ بندی کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے گارڈن ایسٹ رکھ دیا گیا۔ آج بھی پیڈرو روڈ اور بریٹو روڈ کراچی کے علاقے گارڈن ایسٹ میں موجود ہیں۔

فرینک ڈی سوزا بھی اس برادری کا ایک اور بہت اہم نام ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ریلوے گارڈ سے کیا اور پھر زینہ بزینہ ترقی کرتے ہوئے 1929ء میں ریلوے بورڈ آف انڈیا کے پہلے انڈین ممبر بنے۔ تقسیم ہند کے بعد محمد علی جناح نے فرینک کو درخواست کی کہ وہ پاکستان آ کر ریلوے کا نظام ترتیب دیں۔ اس کام کے اختتام پر فرینک اپنی جائیداد عمر رسیدہ افراد کے نام وقف کر کے خود ہندوستان چلے گئے۔


جیروم ڈی سلوا کا شمار کراچی کے ان لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اس شہر کو بے تحاشہ رہائشی عمارتیں، پارک، حکومتی کوارٹر اور شاپنگ پلازہ دیے۔ انہوں نے اپنے ساتھی حسین کے ساتھ مل کر 500 گھروں پر مشتمل حسین ڈی سلوا ٹاؤن نارتھ ناظم آباد بنایا۔ حسین ڈی سلوا کراچی کی پہلی بلند رہائشی عمارت تھی۔ کراچی میں ان کی تعمیرات کی ایک طویل فہرست ہے، جس نے نئے کراچی کی بنیاد رکھی۔

برصغیر کی تاریخ کے پہلے کیتھولک میئر مینول مسقوٹہ 1945ء سے 1946ء تک کراچی کے میئر رہے۔ انہوں نے دو بار کراچی گوا ایسوسی ایشن کے سربراہ کے طور پر خدمات بھی انجام دیں۔ کراچی اور ہندوستان کے پہلے کارڈنل والیریان گراسیاس اور جوزف کوردیرو کا تعلق بھی گوا سے تھا۔ کارڈنل والیریان گراسیاس کا ذکر ٹائمز میگزین میں اگلے ممکنہ پوپ کے طور پر بھی کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ اور پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین چارلس لوبو، جنہیں یو این میں پاکستان کا سفیر بھی بنا کر بھیجا گیا تھا، گوا برادری کا معتبر نام ہے۔


ہرمن ریمنڈ ہائی کورٹ کے جج ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور سندھ کے چیف پراسیکیوٹر بھی رہے۔ اس کے علاوہ سڈنی پریرا جوہری توانائی کمیشن کے چیئرمین کے عہدے پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اگر کھیل کے میدان کی بات کی جائے تو مینن سوریز نے مردوں کے اور فوبی باربوزہ نے خواتین کی بیڈمنٹن، مائیکل روڈریگز نے ٹیبل ٹینس میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

ایک بہت لمبے عرصے تک اس برادری نے اپنی موسیقی سے بھی کراچی کے باسیوں کا دل لبھایا ہے۔ رالف ڈی ارانج گزشتہ پچاس برسوں سے کلاسیکی گٹار بجا رہے ہیں۔ یہ پاکستان میں موجود چند پرتگالی فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ آج بھی پاکستان کے ایک انتہائی مایہ ناز فنکار لوئس جے پنٹو عرف گمبی اپنے فن سے مداحوں کو محضوظ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ''پاکستان کے سابق صدر جرنل ضیاء الحق سے پہلے کراچی میں گوا برادری نے موسیقی میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ تقریباً سارے کلبوں اور ہوٹلوں میں یہی لوگ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ضیاء الحق کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ان فنکاروں نے مغربی ممالک کا رخ کیا۔‘‘


انہوں نے مزید بتایا، ''میں یہ سمجھتا ہوں کے میری پہچان ہمیشہ پاکستان کے اس موسیقار کی حیثیت سے ہی ہو گی، جس نے موسیقی میں مشرقی رنگ شامل کیا۔‘‘ گوانس کی مادری زبان کونکنی آج بھی اس برادری میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ کسی بھی محفل میں کونکنی زبان میں موسیقی کا ہونا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کھانے بھی بہت مشہور رہے ہیں۔ کراچی میں سو سال پرانی مسقوٹہ بیکری آج بھی اپنے ذائقے دار کیک کی وجہ سے مشہور ہے۔

شہر کراچی میں گوا مسیحیوں کی ایک صدی پرانی نشانی کراچی گوان ایسوسی ایشن کے بارے میں کینیڈا میں مقیم 62 سالہ مینن روڈریگز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''یہ کلب گوا پرتگالی ایسوسی ایشن کے نام سے 1887ء میں وجود میں آیا تھا۔ اس کی خوبصورت عمارت 1905ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ 1936ء میں اس کا نام تبدیل کر کے کراچی گون ایسوسی ایشن رکھ دیا گیا۔‘‘


مینن روڈریگز نے گوانس کے عیسائیوں پر ایک تحقیقی کتاب”کراچی کے گوانس" بھی مرتب کی ہے۔ یہ کتاب اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس دور میں بہت کم لوگ ہیں، جو گوان کمیونٹی کے بارے میں جانتے ہیں۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی گوا کےمسیحیوں نے بیرونی ممالک کا رخ کر لیا تھا۔ مینن نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا گیا، 1953 ’’ء کے بعد سے ہی گوانس نے انگلستان، کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا کا رخ کیا۔ یہ لوگ سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کے تناظر میں اچھی زندگی کی تلاش میں ملک سے باہر گئے۔‘‘

جب کہ رونالڈ ڈی سوزا کا کہنا تھا کہ ''1925ء میں جب کینیڈا میں اچھے مواقع موجود تھے تو بہت سے گوانس نے وہاں کا رخ کیا۔ لیکن ضیاء الحق کی حکومت میں جب بین المذاہب ہم آہنگی میں کمی آنا شروع ہوئی تو بہت سے لوگ اچھی زندگی اور مذہبی آزادی کی تلاش میں بھی دوسرے ممالک چلے گئے۔‘‘


کراچی شہر میں اتنے عرصے تک فعال رہنے والی گوان برادری آج بھی اپنے کلب میں کرسمس اور دیگر تقریبات منعقد کرتی ہے مگر یہ اب اس چار دیواری تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

اس حوالے سے کراچی گوانس ایسوسی ایشن کے ٹرسٹی لیذلی روڈریگز نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''اس وقت کا کراچی کچھ اور ہی تھا، کرسمس پر پورا صدر سجایا جاتا، گلیوں میں چراغاں ہوتا تھا۔ ہم سب بلا کسی خوف و خطر خوشیاں مناتے تھے۔ کوئی کسی سے اس کے مذہب اور عقیدے کے بارے میں نہیں پوچھتا تھا کہ وہ پارسی ہے مسلمان یا عیسائی۔ ہم سب بس ایک ہو کر خوشیاں مناتے تھے مگر اب یہ سب کچھ ممکن نہیں رہا۔‘‘


ملک چھوڑ کر جانے کے حوالے سے اک سوال پر انہوں نے کہا کہ ''میں ملک چھوڑ کر کہاں جاؤں گا۔ کراچی جیسا کوئی شہر نہیں، اس شہر کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں یہ ملک اور شہر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔‘‘ انیسویں اور بیسویں صدی میں گوا کے مسیحیوں نے تعلیم، موسیقی، کھیل اور سماجی کاموں میں وہ خدمات سرانجام دیں، جو فراموش نہیں جا سکتیں۔ آج بھی گوانس مختلف محکموں میں اپنی خدمات ایک محبِ وطن شہری کے طور پر سرانجام دے رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */