فیس بک پوسٹ نے جسم فروشی کے لیے اسمگل کی گئی لڑکی کو بچا لیا

کمبوڈیا سے جسم فروشی کے لیے چین اسمگل کی گئی ایک نوجوان خاتون کو ایک فیس بک پوسٹ کی وجہ سے بچا لیا گیا۔ لڑکی کی عمر اس وقت بیس سال ہے اور اسے دو سال قبل ’اچھی ملازمت‘ کا وعدہ کر کے چین لایا گیا تھا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

ڈی. ڈبلیو

کمبوڈیا میں نوم پین سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اسی شہر سے شائع ہونے والے اخبار 'نوم پین پوسٹ‘ نے لکھا ہے کہ اس کمبوڈین لڑکی کو اب چینی پولیس نے اپنی حفاظت میں لے لیا ہے۔ چینی حکام اب اس کے لیے ضروری سفری دستاویزات حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ اسے جلد از جلد واپس اس کے وطن بھیجا جا سکے۔

کمبوڈین وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق 2018ء میں چین پہنچائی گئی یہ لڑکی اس وقت چینی صوبے ہےنان میں حکام کی حفاظتی تحویل میں ہے اور 'وہ جلد از جلد واپس گھر پہنچ جائے گی‘۔ اس لڑکی کو، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، اس وقت سے ہی اذیت ناک حالات کا سامنا تھا، جب سے وہ چین پہنچی تھی۔


چینی مردوں سے 'شادیاں‘

اس لڑکی اور اس کے والدین کو کمبوڈیا سے بیرون ملک اسمگل کرنے والے افراد نے یقین دہانی تو ایک 'اچھی ملازمت‘ کی کرائی تھی لیکن ہےنان پہنچائے جانے پر اسے چینی مردوں سے 'شادیوں‘ پر مجبور کیا گیا تھا۔ یوں یہ لڑکی دو سال تک ذہنی اور جسمانی کرب اور جنسی استحصال کا شکار رہی، جو اب اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔


اس لڑکی نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا کہ جن مردوں کو اس کے 'شوہر‘ قرار دیا جاتا ہے، وہ تو انہیں جانتی تک نہیں اور اسے شدید خطرہ ہے کہ اسے غیر قانونی جسم فروشی کے کسی اڈے کے مالک یا مالکہ کو بیچ دیا جائے گا۔ اس سوشل میڈیا پوسٹ میں اس لڑکی نے کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہُن سَین سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ اسے بچائیں اور وطن واپسی میں اس کی مدد کریں۔

چھ نوجوان لڑکیوں کی اسمگلنگ


اس لڑکی کی والدہ نے کمبوڈیا کی ایک سماجی تنظیم وائس آف ڈیموکریسی کو بتایا کہ اس کی بیٹی کو سترہ سے بیس سال تک کی عمر کی پانچ دیگر لڑکیوں کے ہمراہ انسانوں کی ٹریفکنگ کرنے والے افراد نے 2018ء میں چین پہنچایا تھا۔

اس خاتون نے وائس آف ڈیموکریسی کو بتایا، ''میں نے گزشتہ برس اسی وقت مقامی پولیس سے رابطہ کر کے شکایت کر دی تھی، جب مجھے یہ علم ہوا تھا چین میں میری بیٹی کو اچھے اقتصادی مستقبل کے بجائے جنسی استحصال کا سامنا ہے۔‘‘


کمبوڈیا میں اس لڑکی کا خاندان کراتائی نامی صوبے میں رہتا ہے لیکن اس کی والدہ کی طرف سے پولیس کو کی گئی شکایت کا اس وقت کوئی نتیجہ اس لیے نہیں نکلا تھا کہ یہ پتا چلانا تقریباﹰ ناممکن تھا کہ چین میں یہ کمبوڈین لڑکی کہاں تھی۔ یہ کام اس لڑکی کی اس حالیہ فیس بک پوسٹ کی وجہ سے ممکن ہو سکا، جس میں اس نے اپنے لیے ریسکیو کی درخواست کی تھی۔

کمبوڈین اور چینی حکومتوں کا مشترکہ عزم


کمبوڈیا سے بہت سی خواتین کو انسانوں کے اسمگلر اچھی ملازمتوں یا پھر چینی مردوں سے شادیوں کے وعدے کر کے چین پہنچا دیتے ہیں لیکن بعد میں ایسی خواتین کا اکثر بدترین سماجی اور جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔

بیجنگ اور نوم پین میں حکومتوں نے یہ اتفاق رائے کر لیا ہے کہ وہ انسانوں کی ایسی ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے مل کر نتیجہ خیز اقدامات کریں گی۔ انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ اس مقصد کے بہت زیادہ وسائل درکار ہوں گے اور دونوں ممالک کو ان وسائل کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔