گاؤں کا سست انٹرنیٹ، ایک بڑے مسئلے کا پیش خیمہ

جرمنی ابھی بھی فائبر آپٹک کیبل بچھانے میں کئی ممالک سے پیچھے ہے۔ اس تناظر میں کورونا وبا جیسی کسی اور وبا میں کئی دوردراز کے علاقوں کو مشکلات کا سامنا ممکن ہے۔

جرمن گاؤں کا سست انٹرنیٹ، ایک بڑے مسئلے کا پیش خیمہ
جرمن گاؤں کا سست انٹرنیٹ، ایک بڑے مسئلے کا پیش خیمہ
user

Dw

جینیفر شلز ایک کال سینٹر میں کام کرتی تھیں اور جب کورونا وبا کا پھیلاؤ شروع ہوا تو ان کے باس نے انہیں لیپ ٹاپ دے کر گھر سے کام کرنے یا ہوم آفس کی ڈیوٹی تفویض کر دی۔

وہ ایک گاؤں موزے میں رہتی ہیں اور ہوم آفس کے لیے وہ مناسب سوفٹ ویئر حاصل نہیں کر سکی۔ ان کے گاؤں میں انٹرنیٹ کی سروس تیس برس پرانی تانبے کی تار کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔ جو ٹیلیفون کنکشن کا بھی ذریعہ ہے۔ اس باعث اس گاؤں میں انٹرنیٹ سروس انتہائی سست تھی۔ جرمنی میں کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران جب وائرس کا پھیلاؤ شدید تھا تب جنینفر شلز کو دوبارہ دفتر جا کر کام کرنا پڑا۔


دفتر کو واپسی

جینیفر شلز کا کہنا ہے کہ بسا اوقات وہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری سے خوف کھانے لگتی تھیں اوردوبارہ دفتر جانے کے بعد اس خوف میں یہ بھی شامل ہو گیا کہ آیا انہیں وائرس کی بیماری کووڈ انیس تو لاحق نہیں ہو گئی۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مناسب احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے ابھی تک جنیفر شلز کووڈ انیس سے محفوظ ہیں لیکن ان کی کہانی اس تناظر میں دلچسپ ہے کہ جرمن شہروں میں تیز رفتار انٹرنیٹ دستیاب ہے لیکن کئی دیہات اس سہولت سے محروم ہیں۔


موزے گاؤں کے مکینوں کو بھی اسی محرومی کا سامنا رہا۔ اس گاؤں میں تین سو نفوس بستے ہیں۔ ان کا پیشہ مکئی اگانا اور ٹربائن سے پیدا ہونے والی توانائی کا استعمال ہے۔ یہ گاؤں جرمن دارالحکومت سے دو گھنٹے کی مسافت پر مغرب میں واقع ہے۔

کمٹمنٹ کی کمی اور بیوروکریسی

رواں برس جرمنی کے وفاقی دفتر برائے عمارات و علاقائی منصوبہ بندی نے ایک انتباہی رپورٹ جاری کی تھی کہ سست انٹرنیٹ کنکشن علاقائی اور دیہات کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر ایسا ہی رہا تو جرمنی کے دیہاتی علاقوں کی ایک چوتھائی آبادی اگلے بیس برسوں کے دوران شہروں میں منتقل ہو جائے گی۔


یہ بھی ایک سوال ہے کہ براعظم یورپ کی سب سے بڑی معیشت کے حامل ملک کے کئی علاقے انٹرنیٹ کے بہتر کنکشن سے ابھی تک محروم کیوں ہیں؟ اس معاملے کے دیکھنے کے لیے تین دہائیاں قبل جانا پڑے گا۔

تین دہائیوں قبل کی صورت حال

80 کی دہائی میں اس وقت کے مغربی جرمنی کے سابق چانسلر ہیلموٹ شمٹ نے ایک تیس سالہ ترقی کا اسٹریٹیجک منصوبہ پیش کیا اور اس میں سارے ملک میں نصب کاپر یا تانبے کی تاروں کو تبدیل کرنا شامل تھا۔


ان کے جانشین چانسلر ہیلموٹ کوہل نے اس منصوبے کو منسوخ کر دیا اور اس کی جگہ ٹی وی کیبلز کی تاروں کا جال بچھانے کو فوقیت دی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابقہ مغربی جرمنی میں فائبر آپٹیکل کا پوری طرح جال نہیں بچھایا جا سکا تھا۔

انضمام کے بعد

سن 1990 میں سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کی تقسیم ایک متحدہ جرمنی کی صورت میں سامنے آئی۔ اس نئی صورت حال میں بھی موزے اور اس جیسے دیہات میں تانبے کی تاروں کا متبادل دستیاب نہیں ہوا۔ جرمن شہر ڈوئیسبرگ کے میرکاٹور اسکول آف مینیجمینٹ کے پروفیسر برائے ٹیلی کمیونیکیشنز مینیجمینٹ ٹورسٹن گیرپوٹ کا کہنا ہے کہ فائبر آپٹیکل کو بچھانے میں کئی سال درکار ہیں اور اس باعث لوگوں کو صرف انتظار کرنا ہو گا۔


اس تناظر میں ایک اہم فیصلہ وہ تھا جب جرمنی کے ٹیلی کام سیکٹر کو سن 1995 میں پرائیویٹ کر دیا گیا۔ ایک الیکٹریکل کمپنی کی چیف ایگزیکٹو ژوٹا سیئولو اے جی کا کہنا ہے کہ لبرل فیصلوں کے دور میں کئی خوفناک غلطیاں سرزد ہوئیں اور ہر چیز کو آزاد مارکیٹ کے حوالے کر دیا گیا۔

موزے گاؤں کے میئر کی کوششیں

آزاد مارکیٹ کے دور میں پرانی ٹیکنالوجی کو مزید رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ سن 2013 میں موزے گاؤں کے میئر مارکو رؤہرمان نے اپنے گاؤں کے انٹرنیٹ کی رابطہ کاری بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کی انتھک کاوشیں بیکار رہی اور تبدیلی ممکن نہ ہو سکی۔ موزے جرمن صوبے سکسنی انہالٹ میں واقع ہے۔


نوجوان رؤہرمان اسی گاؤں میں ساری زندگی گزارنے میں مصروف ہیں۔ ان کے مطابق ٹیلی کام کمپنیوں سے کی جانے والی بات چیت بھی ادھوری رہی اور کچھ کمپنیوں نے تیز رفتار کنکشن فراہم کرنے کے وعدے بھی کیے لیکن وہ پورے نہیں ہو سکے۔ گاؤں والوں کا خیال ہے کہ اس مقصد کے لیے کوئی مناسب عمارت کا ہونا ضروری ہے لیکن وہ اس کے لیے بڑی رقم جمع کرنے سے قاصر رہے۔ انہیں مسلسل بیوروکریسی کے سرخ فیتے کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ کا حق

کورونا وبا سے ایک بات سامنے آئی ہے کہ انٹرنیٹ ہر شہری کے حق میں ہے۔ کسی بھی وبا کے دور میں بچے آن لائن کلاسوں سے محروم نہیں رہنے چاہییں اور ہوم آفس بھی اب ایک اہم ضرورت ہے۔ اس تناظر میں انٹرنیٹ کے نئے قانون کی منظوری دی گئی ہے۔


جرمنی کئی ملکوں سے فائبر آپٹیکل نظام کی تنصیب میں پیچھے ہے جیسا کہ سویڈن اور جنوبی کوریا ہیں۔ اب موزے میں برف پگھلنی شروع ہو گئی ہے۔ رواں موسم گرما میں فائبر آپٹیکل کیبل موزے تک پہنچا دی گئی ہے۔ مقامی دیہاتیوں کو بتایا گیا ہے کہ جلد ہی انہیں تیز رفتار کنکشن کی سہولت مل جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔