طاقتور کمپنی کے خلاف ایک جرمن کسان کی قانونی جنگ

طاقتور کمپنی کے خلاف ایک جرمن کسان کی قانونی جنگ۔ بھورے کوئلے کی کان کنی کی خاطر لوگوں کو یہاں سے منتقل کیا جا رہا ہے لیکن ایک کسان اپنے اجداد کا یہ علاقہ چھوڑنا نہیں چاہتا۔

طاقتور کمپنی کے خلاف ایک جرمن کسان کی قانونی جنگ
طاقتور کمپنی کے خلاف ایک جرمن کسان کی قانونی جنگ
user

Dw

جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کا چھوٹا سا گاؤں لیوٹسےراتھ سنسان ہو چکا ہے۔ جرمنی میں توانائی کے شعبے کی ایک بڑی کمپنی نے بھورے کوئلے کی کان کنی کے لیے اس مقام کا انتخاب کیا ہے اور یہاں آباد مقامی کسانوں اور ان کے کنبوں کو دیگر علاقوں میں منتقل کرنے کی خاطر رقوم کے ساتھ ساتھ انہیں نئے گھر بھی دیے ہیں اور کاشت کاری کے لیے زمینیں بھی۔

لیوٹسےراتھ کی تقریباﹰ نوے فیصد آبادی اپنی زمینیں فروخت اور ازالے کی رقوم وصول کرتے ہوئے یہاں سے منتقل ہو چکی ہے۔ تاہم ستاون سالہ ایکہارڈ ہوئکامپ اپنے اس آبائی علاقے کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔ ان کے خاندان کی تین نسلیں اس گاؤں میں کاشت کاری کرتی آئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں صدی کا یہ فارم ہاؤس بکاؤ نہیں ہے۔


سولہ برس قبل آر ڈبلیو ای نامی انرجی کمپنی نے لیوٹسےراتھ میں کان کنی کی خاطر مقامی آبادی کو یہاں سے منتقل کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ متاثرہ افراد کو ازالے کی رقوم بھی دی گئیں اور روشن مستقبل کی ضمانت بھی۔

ہوئکامپ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ مجبوراﹰ اس علاقے سے منتقل ہوئے تاہم وہ اپنی آخری سانس تک یہ قانونی جنگ لڑیں گے۔ شہر میونسٹر کی اعلیٰ انتظامی کورٹ آئندہ چند ہفتوں میں ہوئکامپ کی طرف سے دائر کردہ مقدمے میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔ ہوئکامپ نے اس علاقے میں کوئلے کی کان کنی کے خلاف قانونی درخواست دے رکھی ہے۔


قانونی جنگ سیاسی مسئلہ بن گئی

ہوئکامپ اور آر ڈبلیو ای کے مابین قانونی کشمکش ایک سیاسی تنازعہ بھی بن چکی ہے۔ جرمنی کی کوشش ہے کہ وہ تحفظ ماحول کی خاطر سن دو ہزار تیس تک کوئلے کی کان کنی ختم کر دے گا اور توانائی کے حصول کے لیے ماحول دوست متبادل طریقے اختیار کرے گا۔ گزشتہ جرمن حکومت کے منصوبوں کے مطابق سن دو ہزار اڑتیس تک کوئلے سے چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے گا۔

اگر جرمن حکومت اپنے ان منصوبوں کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہے، تو ماہرین کے مطابق حکومت کو ہوئکامپ کے گاؤں میں کوئلے کی کان کنی کا ایک نیا پراجیکٹ شروع نہیں کرنا چاہیے۔


جرمن انسٹیٹیوٹ برائے اقتصادی تحقیق کے ایک مطالعے میں بھی تجویز دی گئی ہے کہ اگر جرمن حکومت پیرس کلائمیٹ ڈیل کے تحت عالمی درجہ حررات میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے اپنے اہداف کو حاصل کرنا چاہتی ہے، تو لیوٹسےراتھ میں کوئلے کی کان کنی کا یہ نیا منصوبہ شروع ہی نہیں کیا جانا چاہیے۔

پرانی کہانی لیکن نیا کردار

ایکہارڈ ہوئکامپ کی کہانی نے ایسی کئی پرانی کہانیوں کی یاد تازہ کر دی ہے، جن میں کمزور کسان طاقت ور کمپنیوں کے خلاف کمر بستہ ہوئے۔ ہوئکامپ کے اس کیس کو نہ صرف جرمن بلکہ عالمی میڈیا میں بھی کوریج مل رہی ہے۔


تاہم ہوئکامپ میڈیا رپورٹنگ سے خوش نہیں ہیں کیونکہ اس قانونی کشمکش میں ان کی راتوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں اور یہ پریشانی انہیں کھائے جا رہی ہے کہ وہ اپنے فارم ہاؤس سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ انہوں نے اس کے باوجود آر ڈبلیو ای کی طرف سے پیش کی گئی مالی ازالے کی تمام پیشکشوں کو ٹھکرا دیا ہے۔

ہوئکامپ کو احساس ہے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتے لیکن اس بات پر انہیں خوشی ہے کہ ان کی اس کوشش نے لوگوں میں تحفظ ماحول کے لیے ایک نیا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ کئی ماحول دوست کارکن اب ہوئکامپ کے ساتھ ہیں۔


یہاں تک کہ نوجوان سویڈش ماحول دوست کارکن گریٹا تھنبرگ نے بھی گزشتہ برس ستمبر میں لیوٹسےراتھ کا دورہ کیا اور ہوئکامپ سے ملاقات کی تھی۔ تھنبرگ کے اس دورے سے اس معاملے کو میڈیا پر مزید کوریج ملی۔ ماحول دوست کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس سے حکومت پر دباؤ بھی بڑھا ہے۔

ادھر توانائی کے شعبے کی جرمن کمپنی آر ڈبلیو ای کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں بہترین حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت نے گزشتہ برس مارچ میں کہا تھا کہ آر ڈبلیو ای اس علاقے میں کوئلے کی کان کنی کے لیے منصوبے بندی کر سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔