پاکستان میں لاکھوں سیلاب متاثرین بنیادی صحت سہولیات کے منتظر

گذشتہ برس پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے جن کی ایک کثیر تعداد آج بھی رہائش، خوراک اور صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔

پاکستان میں لاکھوں سیلاب متاثرین بنیادی صحت سہولیات کے منتظر
پاکستان میں لاکھوں سیلاب متاثرین بنیادی صحت سہولیات کے منتظر
user

Dw

اقوام متحدہ کے دفتر برائے پراجیکٹ سروسز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ”تقریباً 80 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔ اس وقت دو کروڑ سے زیادہ متاثرین انسانی امداد کے منتظر ہیں۔"

انسانی امداد کے منتظر سیلاب متاثرین پینے کے صاف پانی سے محرومی، غذائی قلت اور رفع حاجت کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب اسہال، سانس کی انفیکشن، جلد اور نفسیاتی بیماریوں کے علاؤہ ہیپاٹائیٹس اور وبائی امراض کا سامنا کر رہے ہیں۔


آج دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے سیلاب متاثرین کی صحت کو درپیش خطرات اور ان کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

صحت کے تباہ حال مراکز اور متاثرین کی کثیر تعداد

سیلاب نے جہاں لاکھوں گھروں کو تباہ کیا وہیں ہزاروں کی تعداد میں طبی مراکز بھی مٹی کا ڈھیر بن گئے جس کی ایک جھلک صوبہ سندھ کے سرکاری اعداد و شمار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ صوبائی حکام کے مطابق سندھ میں سیلابی پانی سے صحت کے 1082 مراکز کو جزوی یا کلی طور پر نقصان پہنچا ہے۔


روٹری انٹرنیشنل کی رکن، معروف سماجی کارکن اور ماہر طب ڈاکٹر زری اشرف ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”ملک بھر میں جہاں جہاں سیلاب آیا وہاں صحت کے مراکز بڑے پیمانے پر تباہ ہوئے۔ سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے عارضی کیمپ اور موبائل ہیلتھ یونٹس قائم کیے لیکن متاثرین کا دائرہ بہت وسیع تھا اس لیے یہ انتظامات ناکافی ثابت ہوئے۔ خاص طور پر غریب طبقے کے لیے یہ انتہائی مشکل صورت حال ہے۔ ان کے پاس تو کرائے کے پیسے بھی نہیں کہ قریب کے کسی علاقے میں سرکاری ہسپتال تک جا سکیں۔ کتنے ہی لوگ آج بھی صحت کی بنیادی سہولیات کے منتظر ہیں۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے الخدمت فاؤنڈیشن جنوبی پنجاب کے صدر ڈاکٹر اشرف علی عتیق بتاتے ہیں کہ ”سیلاب کے آفٹر شاکس سے نبرد آزما ہونا انسانی بس سے باہر نظر آ رہا ہے۔ سیلابی پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں۔ غیر محفوظ کھڑے پانی کے قریب زندگیاں گزارنے پر مجبور لاکھوں افراد ملیریا اور ڈینگی کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کے خطرات سے دوچار ہیں۔"


لاکھوں افراد کا جوہڑوں اور کنوؤں کے پانی پر انحصار

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی گذشتہ ماہ 21 مارچ کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ”سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی کی فراہمی کے بیشتر نظام کو نقصان پہنچا ہے جس کے نتیجے میں 2.5 ملین بچوں سمیت 5.4 ملین سے زیادہ لوگ جوہڑوں اور کنوؤں کے آلودہ پانی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس وجہ سے ان میں ”اسہال، ہیضہ اور دیگر بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں۔"

اس حوالے سے دادو سندھ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اقبال ناصر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں کہ ”ہم نے خود لوگوں کو سیلابی پانی پیتے اور پیٹ درد سے تڑپتے دیکھا۔ جب متبادل میسر نہ ہو تو پیاس کے مارے لوگ کیا کریں؟ اب صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن جب تک واٹر سپلائی کا نظام مکمل طور پر بحال نہیں ہوتا بیماریوں کے ریلے کے آگے بند باندھنا ناممکن ہو گا۔"


یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 'دنیا بھر میں بچوں کی ایک تہائی اموات غذائی قلت کے سبب ہوتی ہیں اور پاکستان میں بچوں کی کُل اموات میں نصف کا سبب غذائی قلت ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 1.5 ملین سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر امراض اطفال ڈاکٹر مبشر قیوم ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں کہ ”بچوں کی افزائش کا سلسلہ تیز رفتار ہوتا ہے، ان کا پورا جسم مسلسل بڑھ رہا ہوتا ہے جس کے لیے مناسب غذا اشد ضروری ہوتی ہے۔ ایک بار یہ کمی رہ گئی تو اسے پورا کرنا قریب قریب ناممکن ہوتا ہے۔ قدرتی آفات کے نتیجے میں جہاں ایک طرف بچے زیادہ تعداد میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں وہیں ایک بڑی تعداد ہمیشہ کے لیے نارمل زندگی سے محروم ہو جاتی ہے۔ جن علاقوں میں سیلاب آیا وہاں آئندہ کئی نسلوں تک اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے۔"


اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تقریباً ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین موجود ہیں جن کے لیے زچگی کے مراحل سے گزرنا مزید دشوار ہو چکا ہے۔ تاحال ایسی خواتین کو تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز، طبی امداد اور نومولود کی بہتر نگہداشت کے وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

ڈاکٹر زری اشرف کہتی ہیں کہ ”جنوبی پنجاب کے اضلاع میں خواتین کی صحت پہلے ہی تشویش ناک ہے، بالعموم ایک عورت کا وزن 40 یا 45 کلو ہوتا ہے جو صحت مند خاتون کے وزن سے کافی کم ہے۔ سیلاب نے ان مشکل زندگی مشکل تر کر دی ہے۔" بلوچستان سائیکالوجسٹ ایسوی ایشن کی رکن اور ماہر نفسیات راضیہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں کہ ”میرا سیلاب متاثرہ خواتین سے رابطہ ہے جو خوفزدہ اور پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔ خاص طور پر جنہیں اسقاط حمل کے تکلیف دہ تجربے سے گزرنا پڑا، پھر ماہواری کے دوران مناسب سہولیات نہ ہونا، یہ سب بہت سی خواتین کے لیے نفسیاتی صدمے کا باعث بنا اور آج بھی وہ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔"


ڈاکٹر اشرف علی عتیق کہتے ہیں کہ ”صحت مند زندگی ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس سے سیلاب متاثرین تاحال محروم ہیں۔ مختلف علاقوں میں ابھی تک سیلابی پانی کھڑا ہے اور جب تک اس کی نکاسی کا مناسب انتظام نہ کیا گیا وبائی امراض کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔" ڈاکٹر زری اشرف کہتی ہیں ”فنڈز کی کمی کی وجہ سے بالعموم ایک خاندان کو ایک کمرہ تعمیر کر کے دیا گیا۔ جب تک باقاعدہ گھر نہیں بنتے اور رفع حاجت کی صاف سہولتیں میسر نہیں ہوتیں تب تک جلد ی امراض سمیت دیگر بیماریوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔"

ڈاکٹر مبشر قیوم کا کہنا تھا ”سیلاب زدہ علاقوں میں فصلیں بھی بڑے پیمانے پر تباہ ہوئیں سو وہاں کسانوں اور دیگر غریب طبقات کے لیے خوراک ایک سنگین مسئلہ ہے۔ صحت مند غذا کے بغیر صحت مند زندگی ممکن نہیں۔ اس لیے سرکاری اور غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کو اس طرف ضرور توجہ دینی ہو گی۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔