ایران میں درجنوں مظاہرین کو سزائے موت ملنے کا خطرہ

انسانی حقوق کے گروپوں نے کہا ہے کہ ایران میں حکومت مخالف ملک گیر مظاہروں میں گرفتار کم از کم 100 افراد کوموت کی سزا دیے جانے کا خطرہ ہے۔ دو مظاہرین کو رواں ماہ پھانسی دی جاچکی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>

تصویر بشکریہ آئی اے این ایس

user

Dw

ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نگاہ رکھنے والے اوسلو کے ادارے ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں کم از کم 100 افراد کو پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔

آئی ایچ آر نے ایران میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران گرفتار مظاہرین کے خلاف زیر سماعت مقدمات کی بنیاد پر کہا کہ "اس وقت کم از کم 100 ایرانی مظاہرین کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ انہیں بھی جلد پھانسی پر لٹکایا جاسکتا ہے۔"


آئی ایچ آر کے مطابق کم از کم 11 افراد کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے، جن میں پانچ خواتین شامل ہیں۔ رواں ماہ دو مظاہرین محسن شکاری اور مجید رضا راہ نورد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ ان دونوں کی عمر 23 برس تھی اور ان پر ایرانی حکومت کے خلاف اقدامات کے جرائم عائد کیے گئے تھے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دونوں مظاہرین کو پھانسی پر لٹکانے کا مقصد حکومت کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ڈرانا دھمکانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی حکام مظاہرین کے خلاف کارروائی کرکے ان میں خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں۔


بین الاقوامی برادری سے اپیل

آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمد امیری مقدم کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو موت کی سزائیں دی گئی ہیں انہیں قانون تک بہت محدود رسائی دی گئی۔ بیشتر گرفتار مظاہرین کو شدید ذہنی و جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان سے زبردستی اعترافی بیانات لیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "سزائے موت دے کر اور ان میں سے کچھ کو پھانسی پر لٹکا کر حکام دراصل لوگوں کو اپنے اپنے گھروں تک محدود رہنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ،"حالانکہ اس کا کچھ اثر بھی ہو رہا ہے تاہم ہم نے عمومی طور پر دیکھا ہے کہ لوگوں میں حکام کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ غصہ ہے اور لوگوں میں خوف پیدا کرنے کی حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے۔ "


آئی ایچ آر کا کہنا ہے کہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ پھانسی کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہو کیونکہ 100 افراد کی کم سے کم تعداد صرف اس لیے سامنے آسکی ہے کیونکہ ایرانی شہری خوف اور دباو کی وجہ سے خاموش ہیں۔ آئی ایچ آر نے اپنے بیان میں بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ اس سنگین صورت حال کا فوراً نوٹس لے اور تہران کے خلاف ایسے اقدامات کرے جس سے ایرانی حکومت کو ان پھانسیوں کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے۔

پھانسی پر عمل درآمد میں 88 فیصد کا اضافہ

ستمبر کے وسط میں ایک ایرانی کرد خاتون 22 سالہ مہسا امینی کی ایرانی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد سے ہی ملک بھرمیں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔


انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق ان مظاہروں میں اب تک 476 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایران کے اعلیٰ سکیورٹی ادارے نے دسمبر کے اوائل میں 200 سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی جن میں سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اب تک 14000 سے زائد افراد کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔

امریکہ سے سرگرم انسانی حقوق کے گروپ ایچ آر اے این اے نے پیر کے روز شائع اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ایران میں گزشتہ برس کے مقابلے سن 2022 میں پھانسی کی سزاوں پر عمل درآمد میں 88 فیصد کا اضافہ جب کہ موت کی سزاوں میں آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پھانسی کی بیشتر سزائیں قتل یا منشیات کے جرم میں دی گئیں۔


بین الاقوامی حقوق انسانی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2021 میں ایران میں کم از کم 314 افراد کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ایران سزائے موت دینے کے لحاظ سے چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔