یورپی ممالک شہریت کو کیسے منظم کرتے ہیں

پورے یورپ میں شہریت کے قوانین کافی مختلف ہیں۔صرف چند یورپی ممالک ہی دہری شہریت رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جرمنی ملک میں دوہری شہریت سے متعلق اصلاحات کے منصوبے پر بحث کر رہا ہے۔

یورپی ممالک شہریت کو کیسے منظم کرتے ہیں
یورپی ممالک شہریت کو کیسے منظم کرتے ہیں
user

Dw

دو پاسپورٹ، فاسٹ ٹریک نیچرلائزیشن، ''گولڈن ویزا‘‘ اور دوہری یا ایک سے زیادہ شہریت پہلے ہی بہت سے یورپی ممالک میں روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ جرمنی اپنے ہاں شہریت کے قانون میں اصلاحات کے زریعے اس رجحان کی پیروی کر رہا ہے۔ صرف چند یورپی ممالک دوہری شہریت رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ جرمنی، نیدرلینڈز، آسٹریا، ایسٹونیا، بلغاریہ، اسپین، ناروے، لٹویا اور لیتھوانیا میں مستثنیات کے حوالے سے بہت سخت قوانین ہیں۔

کچھ یورپی قومیں اضافی شہریت کے امکان کو کاروباری ماڈل سمجھتی ہیں۔ یونان، ترکی، پرتگال، مالٹا اور بعض دیگر ریاستیں کچھ لوگوں کو رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے، کاروبار شروع کرنے یا کاروبار میں سرمایہ لگانے کے بدلے ''گولڈن ویزا‘‘ اور رہائش کی پیشکش کرتے ہیں۔


پاسپورٹ کے راستے میں رکاوٹیں

نیچرلائزیشن کے راستے کو پورے یورپ میں بہت مختلف طریقے سے منظم کیا جاتا ہے۔ عالمی نقل مکانی اور پناہ گزینوں کی نقل و حرکت میں اضافے، بین القومی شادیوں میں اضافے اور ہنر مند کارکنوں کی وسیع قلت کے نتیجے میں بہت سے یورپی ممالک نے 2000 کی دہائی سے اپنے شہریت کے قوانین میں ترمیم کی ہے۔

بچوں کے لیے شہریت کا تعین ان کے نسب اور جائے پیدائش سے کیا جاتا ہے لیکن بالغ تارکین وطن کے لیے ضوابط مختلف ہوتے ہیں۔ نیچرلائزیشن کی راہ میں حائل رکاوٹیں فرانس، برطانیہ، پرتگال، پولینڈ، سویڈن، فن لینڈ اور بیلجیم میں نسبتاً کم ہیں۔ اگر تارکین وطن کی شادی یورپی شہریوں سے ہوتی ہے تو اس مدت کو کم کر کے تین سال کر دیا جاتا ہے۔ وہ نیچرلائزیشن کے بعد اپنی اصل شہریت بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔


سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، اٹلی، اسپین، بلغاریہ، جمہوریہ چیک اور سلووینیا میں تارکین وطن کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانونی اورمستقل طور پر کسی ملک میں کم از کم 10 سال تک مقیم ہوں تاکہ وہ نیچرلائزیشن کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوں۔ اس عمل کے لیے آئرلینڈ، ہنگری، رومانیہ اور سلوواکیہ میں آٹھ سال جبکہ ڈنمارک میں نو سال درکار ہوتے ہیں۔

'متعدد شہریتوں کی فعالیت‘

اگر جرمنی اپنی شہریت سے متعلق قانون سازی میں اصلاحات کرتا ہے تو یہ ملک ان اقوام کی صف میں شامل ہو جائے گا جو کم درجے کی نیچرلائزیشن کی وکالت کرتے ہیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق اگر شہریت کا نیا قانون منظور ہو جاتا ہے تو یہ '' کثیر الملکی شہریتوں کی اجازت دے گا اور جرمن شہریت کے حصول کو آسان بنائے گا۔‘‘


نئے قانون کے تحت بیرون ملک رہنے والے جرمن شہری جو ذاتی یا پیشہ ورانہ وجوہات کی بنا پر دوسری شہریت کے لیے درخواست دیتے ہیں تو اب انہیں اپنی جرمن شہریت چھوڑنے یا اسے برقرار رکھنے کے لیے درخواست نہیں دینا ہوگی۔ جرمن شہریت لینے والے ترک شہری ترک پاسپورٹ کے لیے دوبارہ درخواست دے سکیں گے۔

ایک وکیل اور ہجرت کے ماہر اونال زیران کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات التوا میں ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے لیے یہ ضروری ہے کہ یکساں سلوک کے اصول کی وجہ سے متعدد شہریت متعارف کرائی جائیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،'' بہت سے ترک خاندان جو 40 سال سے جرمنی میں مقیم ہیں اور کام کر رہے ہیں وہ اس بارے میں اپنے ساتھ امتیازی سلوک محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ آپشن بہت سے لوگوں کوپہلے ہی دستیاب ہے لیکن ان (ترکوں) کے لیے نہیں۔‘‘


جرمنی میں جرمن شہریت کے علاوہ دوسری شہریت حاصل کرنے کے مختلف طریقے پہلے سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یورپی یونین کے شہریوں کو اپنی اصل شہریت رکھنے کی اجازت ہے۔ جرمنی میں غیر ملکی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو اب 22 سال کی عمر تک قومیت کے بارے میں فیصلہ نہیں کرنا پڑتا ہے۔ جرمن شہریت حاصل کرنے والے بہت سے غیر ملکی اپنے پاسپورٹ رکھ سکتے ہیں کیونکہ ان کا اصل ملک انہیں شہریت چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا، جن میں بہت سے مہاجرین بھی شامل ہیں۔

جرمن وزارت داخلہ کے مطابق وزیر داخلہ نینسی فیزر کا جرمن شہریت کے قانون میں اصلاحات کا مسودہ ابھی تک داخلی جانچ مرحلے پر ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ اس بارے میں حتمی مسودہ ووٹنگ کے لیے جرمن پارلیمان یعنی بنڈسٹاگ میں کب جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔