یورپ ڈے: یورپی شہری یورپی مستقبل کے بارے میں پرامید

یورپی یونین کے شہریوں پر مشتمل ایک گروپ نے گزشتہ ایک سال اس بحث میں گزارا کہ مستقبل میں یونین کی ہیئت کیسی ہو سکتی ہے۔ ان کے خیالات پر عمل درآمد کا مطلب ای یو کی فعال سرگرمیوں کو ایک نئی شکل دینا۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

اس مکالمت کے سلسلے کو ’کانفرنس فار فیوچر آف یورپ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے۔ ان شہریوں کی ذمہ داری یورپی یونین کے رکن ستائیس ممالک کے ساڑھے چار سو ملین افراد کے مستقبل بابت غور فکر کرنا تھا۔

گزشتہ سال مئی سے رواں برس مئی تک یورپی مستقبل کی اس ایک سالہ کانفرنس میں شریک افراد کئی پلاننگ میٹنگوں، مباحثوں اور ورکنگ گروپوں میں شریک ہو کر مستقبل کی صورت حال پر گفتگو کرتے رہے۔ ان افراد کے ساتھ یورپی پارلیمنٹ کے اراکین، یورپی کمیشن کے نمائندے اور یورپی کونسل کے اہلکاروں نے بھی وقفے وقفے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔


اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز مئی سن 2021 میں ہوا تھا۔ اس کا مقصد عام شہریوں کی آراء کو وقعت دینا اور یورپی یونین کے مستقبل کے بارے میں ان افراد کے نظریات سے آگہی قرار دیا گیا۔ اس منصوبے میں شامل افراد کو کئی ورکنگ گروپوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ ان باشندوں نے ورکنگ گروپوں میں مہاجرت، قانون کی حکمرانی، ماحولیاتی تبدیلیوں، صحت اور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحثوں میں حصہ لیا۔

ان شرکاء نے مجموعی طور پر 325 تجاویز کو حتمی شکل دی تا کہ مستقبل میں یونین ان پر عمل کر سکے۔ ان افراد نے خاص طور پر اشیائے خوراک کے معیار پر بھی توجہ مرکوز رکھی۔


ان تجاویز میں کچھ ایسی بھی ہیں، جن پر عمل کرتے ہوئے یورپی یونین کو نئی ہیئت دینا پڑے گی۔ اس میں ایک خارجہ پالیسی کے لیے متفقہ فیصلوں سے نجات اور دوسری ٹیکس معاملات بھی ہیں۔ ان پر عمل کرنا شاید یورپی یونین کے لیے ممکن نہیں ہو گا کیونکہ اس کے لیے بنیادی معاہدوں کو تبدیل کرنا پڑے گا اور وہ ایک بہت پیچیدہ عمل ہو گا۔ اس ایک سالہ منصوبے میں بیلجیم کی 62 سالہ خاتون آنیمی ڈی کلارک اور بلغاریہ کے نوجوان کراسیمیر زلاتینوف بھی شامل تھے۔ ان دونوں یورپی شہریوں سے ڈی ڈبلیو کی نمائندہ نے گفتگو کر کے ان کے خیالات کو سنا۔

اس خاص پلان میں یورپی باشندوں کو شامل کرنے کے لیے ان کا انتخاب غیر نپے تلے انداز میں کیا گیا اور انتخاب کے لیے کوئی خاص معیار بھی مقرر نہیں تھا۔ یوں ہر طبقہٴ فکر کے افراد کو نمائندگی ملی۔


بیلجین خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپی یونین کے ادارے عام شہریوں کی روزمرہ زندگی سے بہت دور ہیں اور اس منصوبے میں شریک ہو کر انہیں موقع ملا کہ وہ یورپ کے بارے میں اپنی معلومات بڑھا سکیں اور اس کے مستقبل کو کسی حد تک متاثر کرنے کے عمل میں شریک ہو کر اسے ایک نئی ہیئت و جہت دینے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

آنیمی ڈی کلارک اس ورکنگ گروپ کا حصہ تھیں، جس کا کام جمہوریت سے متعلق تھا۔ ان کے مطابق گروپ کے اراکین اپنے اپنے مختلف تاریخی اور سیاسی پس منظر کی وجہ سے آپس میں اختلاف ضرور رکھتے تھے لیکن ایک نکتے پر وہ متفق تھے کہ یونین کے ہر رکن ملک میں جمہوریت کا مضبوط اور مستحکم ہونا ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر یورپی اقوام اپنا دفاع کر سکیں گی اور دوسری قوموں کو جمہوری طرزِ زندگی کا پیغام دے سکیں گی۔


بلغاریہ کے انتیس برس کے باشندے کراسیمیر زلاتینوف نے اس ایک سالہ مکالمت میں شرکت کو اپنی زندگی کا بہت حیران کن وقت قرار دیا۔ ان کو جس گروپ میں رکھا گیا تھا، وہ یورپ کے لیے مستقل تکلیف کا باعث بننے والا مسئلہ یعنی غیر قانونی مہاجرت تھا۔ ابھی تک یورپی یونین کی ریاستیں اپنے ہاں مہاجرین کی تقسیم کے لیے کوئی فارمولا طے نہیں کر پائیں۔

زلاتینوف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے گروپ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ یورپی یونین کو اب تک اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی دائمی حل تلاش کر لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے اپنے ملک پر بھی تنقید کی کیونکہ وہاں ذہین افراد کے ملک چھوڑ کر جانے کے رجحان یعنی 'برین ڈرین‘ کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت اس کو روکنے میں ابھی تک ناکام ہے۔


زلاتینوف کے مطابق ان کے ملک کے پڑھے لکھے شہری مغربی یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ بلغاریہ کے شہری کراسیمیر زلاتینوف کو ایک اور بات بھی پریشان رکھتی ہے کہ یونین کی رکن تمام ریاستوں میں کام کاج کی شرائط یکساں نہیں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔