جرمنی، زیر حراست ملزم کی ہلاکت پر پولیس کے خلاف تحقیقات

پولیس کو ملزم کی پرتشدد گرفتاری کے وقت ایک راہگیر کی طرف سے بنائی گئی موبائل فوٹیج ڈیلیٹ کرنے پر بھی تحقیق کا سامنا ہے۔ بعض جرمن پولیس افسران پر نسل پرستی اور انتہاپسند خیالات کے الزامات بھی ہیں۔

جرمنی، زیر حراست ملزم کی ہلاکت  پر پولیس کے خلاف تحقیقات
جرمنی، زیر حراست ملزم کی ہلاکت پر پولیس کے خلاف تحقیقات
user

Dw

جرمنی کے دفتر استغاثہ نے ایک ملزم کی پر تشدد گرفتاری اور بعد ازاں دوران حراست ہلاکت کے واقعے پر متعدد پولیس افسران کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق پولیس کی جانب سے ایک راہگیر کے موبائل فون سے اس واقع کی فوٹیج ڈیلیٹ کرنے کے واقع کی بھی تحقیق کی جائے گی۔

پولیس حراست میں مرنے والے اس شخص کے پوسٹمارٹم میں ابھی تک اس کی ہلاکت کی وجہ سامنے نہیں آئی تاہم اس شخص کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانے اور اسے گرفتار کرنے سے پہلے اس کی آنکھوں میں مرچوں والا اسپرے کرنے کے الزام میں آٹھ پولیس افسران سے پوچھ گچھ کی جار ہی ہیں۔ استغاثہ کو یقین ہے کہ ان کے پاس کم از کم ایک عدد ایسی موبائل فوٹیج دستیاب ہے جس میں پولیس کو اس شخص کو مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ فوٹیج واقعے کے وقت وہاں موجود افراد میں سے کسی ایک نے اپنے موبائل فون سے بنائی تھی۔ اس ممکنہ جرم کے ارتکاب کے تناظر میں بھی چار پولیس افسران سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔


گرفتاری کے دوران کیا ہوا تھا؟

یہ گرفتاری سات اگست کوجرمنی کے مغربی قصبے اوئر ایرکنشوک میں ہوئی تھی۔ وہاں ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس کو ایک اپارٹمنٹ میں بلایا گیا۔ پولیس نے گرفتاری پر مزاحمت کے بعد مشتبہ شخص پر مرچوں کا اسپرے استعمال کیا تھا۔

پولیس کی جانب سے اس واقع کی ایک فوٹیج کو حذف کرنا جبری کاروائی قرار دیا جاسکتا ہے۔ دفترِ استغاثہ کسی بھی حذف شدہ فوٹیج کو دوبارہ بحال کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر راہگیروں سے تحقیق میں مدد دینے کے لیے کوشاں ہے۔


پولیس کی جانچ پڑتال جاری

اس واقعے نے جرمن پولیس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور خاص طور پر پولیس کی طرف سے احتجاج کے دوران طاقت کے غیرضروری استعمال کے حوالے سے بہت سے الزامات کو بھی بڑھوتی دی ہے۔ جرمنی میں پولیس تشدد کے حوالے سے آوازیں 2020 ء میں امریکہ میں جارج فلوئیڈ کے قتل کے خلاف مظاہروں کے دوران زیادہ سامنے آئی تھیں۔ امریکہ میں شروع ہونے والے یہ مظاہرے یورپ میں بھی پھیل گئے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔