جرمنی کے زیادہ تر حصوں میں ایمرجنسی نمبر بند کیوں ہوئے؟

جرمنی کے زیادہ تر حصوں میں پولیس اور فائر بریگیڈ کے ہنگامی نمبروں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ حکام یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں اتنا بڑا واقعہ کیسے پیش آیا؟

جرمنی کے زیادہ تر حصوں میں ایمرجنسی نمبر بند کیوں ہوئے؟
جرمنی کے زیادہ تر حصوں میں ایمرجنسی نمبر بند کیوں ہوئے؟
user

Dw

جرمن ایمرجنسی سروسز نے جمعرات گیارہ نومبر کو علی الصبح اطلاع دی کہ پولیس اور فائر بریگیڈ کے ہنگامی نمبروں پر کی گئی کالیں موصول نہیں ہو رہی تھیں۔ اس کے بعد شہری تحفظ اور قدرتی آفات سے متعلق امداد کے وفاقی دفتر (بی بی کے) نے جمعرات کی صبح ایک سرکاری نوٹس بھیجا، جس میں شہریوں کو متنبہ کیا گیا کہ 112 اور 110 کے ایمرجنسی نمبر ڈاؤن ہو چکے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت برلن میں پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر اسی طرح کے اعلانات کیے ہیں۔ پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہنگامی امدادی نمبر 110 مکمل طور پر بند ہو چکا ہے اور یہ نمبر بحال ہوتے ہی عوام کو مطلع کر دیا جائے گا۔


بی بی کے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایمرجنسی نمبروں کو بعد میں بحال کر دیا گیا تھا لیکن خلل کی وجہ تاحال واضح نہیں ہے، ''آج صبح ایمرجنسی نمبروں میں خلل پڑ گیا۔ اس کے بعد یہ سروس بحال کر دی گئی تھی۔ ٹیلی کام (نیٹ ورک کا انتظام کرنے والی کمپنی) کی جانب سے خرابی کا تجزیہ کرنے کا عمل پہلے سے ہی جاری ہے۔‘‘

کئی بڑے شہر متاثر

بی بی کے کے مطابق برلن، ہیمبرگ اور فرینکفرٹ سمیت کئی بڑے شہروں میں یہ ایمرجنسی نمبر کام نہیں کر رہے تھے۔ تاہم فرینکفرٹ پولیس نے اب اعلان کر دیا ہے کہ اس شہر میں یہ سروس بحال کر دی گئی ہے۔ جرمنی کے دیگر شہروں میں یہ سروس تقریباﹰ مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے بحال ہو گئی تھی۔


تاہم ہنگامی کال کرنے کے خواہش مند باشندوں کو اب بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں وہ براہ راست قریبی پولیس اسٹیشنوں کو ان کے مقامی نمبروں پر کال کریں۔ گزشتہ کئی عشروں میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر ایمرجنسی نمبر سروس متاثر ہوئی ہو۔

جرمن حکومت نے جولائی میں تباہ کن سیلاب کے بعد اپنے بحرانی نیٹ ورک کو اپ گریڈ کرنے کے لیے لاکھوں یورو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس میں مزید انتباہی سائرن نصب کرنا اور موبائل فون الرٹ سسٹم قائم کرنا بھی شامل ہے۔


بی بی کے کے صدر آرمین شُسٹر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہمیں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارا انتباہی نظام ہر صورت کام کرتا رہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔