نئے نازی اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں؟

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جدید دور میں نازی خیالات کے حامل افراد اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں۔ اس موضوع پر ایک نئی فلم نے انتہائی دائیں بازو کے منظر نامے کے بہت سے حقائق کو بے نقاب کر دیا ہے۔

نئے نازی اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں؟
نئے نازی اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں؟
user

ڈی. ڈبلیو

اس دستاویزی فلم کا نام ’چھوٹے گَیرمانن‘ ہے اور اس کے ذریعے یہ پتہ چلانے کی کاوش کی گئی ہے کہ نئے نازی افراد والدین کے طور پر اپنے بچوں کو ذہنی طور پر انتہا پسندانہ نظریات کا حامل کیسے بناتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ نئے نازی والدین کی طرف سے ان کے بچوں کی اس طرح تربیت کا عمل جرمنی میں تقریباﹰ بیس ہزار بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔

اس دستاویزی فلم کی جرمن سینما گھروں میں نمائش جمعرات نو مئی سے شروع ہو رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اس فلم کے فلم سازوں میں سے ایک فرانک گائگر کے ساتھ بات چیت کی:


’چھوٹے گَیرمانن‘ یا انگریزی میں ’لِٹل جرمنز‘ نامی اس دستاویزی فلم کا نام ان خوفناک حقائق کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا، جن سے اس فلم میں پردہ اٹھایا گیا ہے۔ یہ دستاویزی فلم جرمنی کے معروف فلم ساز فرانک گائگر اور محمد فاروق منش نے مل کر بنائی ہے۔ اس میں جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جن شخصیات سے متعلق تفصیلات شامل کی گئی ہیں، ان میں معروف پبلشر، صحافی اور سیاسی کارکن گوئٹس کُوبِیچَیک اور انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این پی ڈی) کی سابقہ خاتون سیاستدان زِیگرِیڈ شُسلر بھی شامل ہیں۔

سوال، آپ کو اس فلم میں نئے نازیوں کے بچوں کی پرورش کے طریقے پر توجہ دینے کا خیال کیسے آیا؟


فرانک گائگر: ہمیں یہ خیال اس بات کا پتہ چلنے کے بعد آیا کہ ایک لڑکی تھی، جو ذیابیطس کی مریضہ تھی لیکن اس کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس مرض کے خلاف انسولین استعمال کرے۔ پھر جب متعلقہ شہر کے نوجوانوں سے متعلقہ امور کے سرکاری دفتر سے رابطہ کیا گیا، تو یہ خاندان جرمنی کے ایک وفاقی صوبے سے دوسرے میں منتقل ہو گیا، صرف اس بات سے بچنے کے لیے کہ ان کی بیٹی کا والدین کی مرضی کے برعکس علاج نہ کیا جائے۔

انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد کی ایک برادری میں بڑی ہونے والی یہ لڑکی اپنے ارد گرد کے سماجی ماحول سے فرار چاہتی تھی اور اس کی کہانی وہ سب حقائق واضح کر دیتی ہے کہ نئے نازی گھرانوں میں بچوں کی پرورش کس طرح کے حالات میں کی جاتی ہے۔

اس فلم میں ان شخصیات کو ان کے بچپن کی خوابوں اور تعلیم سے متعلق مثالی تصورات کی وضاحت کے لیے کہا گیا اور فلم سازوں نے اس فلم میں اپنی طرف سے ان جرمن باشندوں کے جوابات پر نہ تو کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی ان کے جوابات پر کوئی استدلال کیا ہے۔ لیکن انہی جوابات پر ان ماہرین کے تجزیاتی تبصرے بہرحال اس فلم کا حصہ ہیں، جو جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندی پر تحقیق کے ماہر ہیں اور ایسے تبصرے کرتے ہوئے ان ماہرین کو سکرین پر نہیں دکھایا گیا۔


ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس سوچ کے پیچھے کس طرح کی ذہنیت کارفرما ہے۔ تو پتہ یہ چلا کہ اس لڑکی کا خاندان انتہائی دائیں بازو کی سوچ پر پختہ یقین رکھنے والا ایک ایسا گھرانہ تھا، جو نسلوں سے اپنی اسی روایتی سوچ پر عمل پیرا تھا۔

یہ خاندان جدید طب اور اس کی سہولیات کو ’یہودیوں کا پیدا کردہ طریقہ علاج‘ قرار دے کر اسے مسترد کرتا تھا۔ یہ خاندان ’نیو جرمن میڈیسن‘ کہلانے والے اس طریقہ علاج پر یقین رکھتا تھا، جو رائک گیئرڈ ہامر نامی شخص نے تیار کیا تھا۔ (اس نقلی طریقہ علاج کے بانی کو کئی افراد کی موت کے بعد لمبی مدت کی سزائے قید سنا دی گئی تھی اور اس کا 2017ء میں انتقال ہو گیا تھا۔)


سوال، اس دستاویزی فلم میں ان انٹرویوز کے علاوہ یہ تفصیلات بھی دکھائی گئی ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد کے نابالغ بچے ایک یوتھ کیمپ میں اپنا وقت کس طرح کی مصروفیات میں گزارتے ہیں۔ ایک کہانی ایک ایسی عورت کی بھی ہے، جس کا نام ’اَیلزا‘ ہے۔ وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتی، اس لیے اس کی شخصیت کی تفصیلات اینیمیشن کی صورت میں دکھائی گئی ہیں۔

فرانک گائگر: یہ خاندان جدید طب اور اس کی سہولیات کو ’یہودیوں کا پیدا کردہ طریقہ علاج‘ قرار دے کر اسے مسترد کرتا تھا۔ یہ خاندان ’نیو جرمن میڈیسن‘ کہلانے والے اس طریقہ علاج پر یقین رکھتا تھا، جو رائک گیئرڈ ہامر نامی شخص نے تیار کیا تھا۔ (اس نقلی طریقہ علاج کے بانی کو کئی افراد کی موت کے بعد لمبی مدت کی سزائے قید سنا دی گئی تھی اور اس کا 2017ء میں انتقال ہو گیا تھا۔)


اس خاندان کے کئی بچے تھے، نئے نازیوں کی ذہنیت کے عین مطابق، سات بچے تو عام سی بات ہے۔ تو ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس گھرانے کے بچوں میں سے کتنوں کی پرورش والدین کے نظریات کے عین مطابق کی جا رہی تھی۔ ہمیں جو جواب ملا، وہ پریشان کن تھا۔

سوال، تو ایسے بچوں کی تعداد کتنی تھی؟


فرانک گائگر: ہم نے اس فلم میں یہ تعداد جان بوجھ کر نہیں بتائی۔ اس لیے کہ ہم چاہتے تھے کہ دیگر متاثرہ خاندان اور ان کے بچے بھی خود کو سامنے لائیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد 20 ہزار تک ہے، جو عرف عام میں اس ’قومی‘ تحریک کا حصہ ہیں۔ ہمیں یہ تعداد ’ایگزٹ، ڈوئچ لینڈ‘ نامی اس غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے پتہ چلی، جو ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے، جو جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے منظر نامے سے نکل کر معمول کی سماجی جمہوری زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور جس کے اپنی سوچ ترک کر دینے والے کئی سابقہ نئے نازیوں کے ساتھ بھی قریبی روابط ہیں۔

جہاں تک ایلزا کا تعلق ہے تو یہ جرمن لڑکی، جو اب ایک نوجوان عورت ہے، بچپن سے ہی اپنے ذہن میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات بٹھائے جانے کے باوجود اپنے لیے ایک نیا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب رہی۔


سوال، آپ نے اس دستاویزی فلم میں بار بار اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ نئے نازی اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں، کس لیے؟

فرانک گائگر: اس لیے کہ ہمارے لیے یہ وضاحت کرنا بہت ضروری تھا کہ نئے نازی اپنے اپنے گھرانوں میں ایک ’وطن‘ کے طور پر جرمنی کے اس تصور کو کس طرح زندہ رکھنا چاہتے ہیں، جو انہوں نے اپنے والدین سے سیکھا تھا۔ اسی لیے وہ اپنے بچوں کو بھی اپنے طور پر ایک ایسے بچپن کو موقع ہر حال میں دینا چاہتے ہیں، جو ان کے نزدیک ’محفوظ بچپن‘ ہوتا ہے۔


ایک اور بات جو اس فلم کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی، وہ یہ تھی کہ ’لٹل جرمنز‘ میں جتنے بھی کیسز کا مطالعہ کیا گیا، ان سب گھرانوں میں خاندان کا سربراہ والد ہی ہوتا ہے، جو ایک بہت مضبوط اور حکم دینے والی شخصیت کا مالک ہوتا ہے اور جس کی عمومی سوچ یہ بھی ہوتی ہے کہ جذبات کچھ نہیں ہوتے اور واحد قابل قبول جذبہ صرف ملک یا ’وطن‘ سے محبت کا جذبہ ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 May 2019, 4:52 AM