پاکستان: کیا آپ ہنگامی صورت حال سے نپٹنا جانتے ہیں؟

پاکستانی اسکولوں اور مختلف اداروں میں فوری طور پر لوگوں کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ریسکیو اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ قدرتی آفت آنے پر انسانی جانوں کے زیاں سے بچا جا سکتا ہے۔

کیا آپ ہنگامی صورت حال سے نپٹنا جانتے ہیں؟
کیا آپ ہنگامی صورت حال سے نپٹنا جانتے ہیں؟
user

Dw

زمانہ طالب علمی کا قصہ ہے کہ ہمارے سالانہ امتحان کے پرچے والے دن شہرِ کراچی میں دھواں دھار بارش ہو رہی تھی۔ محدود ذرائع ابلاغ کا زمانہ تھا لہذا ممکن نہ تھا کہ پیپر کینسل ہونے کی اطلاع بر وقت ہم تک پہنچ پاتی اور یہ بھی ممکن نہ تھا کہ ہم اپنے نہ پہنچ سکنے کی خبر از خود اسکول میں دے پاتے۔ لہذا مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق صبح سویرے اسکول کی جانب رواں دواں ہوئے۔ شہر کی سڑکوں کا اس وقت بھی کچھ پرسانِ حال نہ تھا۔ موجودہ زمانے کی طرح ہی تمام سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ گرتے پڑتے، ڈوبتے ابھرتے، جیسے تیسے اسکول پہنچ ہی گئے۔ دروازے پر سخت گیر ہیڈ ماسٹر صاحب کو موجود دیکھ کر روح فنا ہو گئی کہ آج تو دن کا آغاز ہی بےعزتی سے ہونے والا ہے۔ لیکن تمام طلب علم جو بارش کے پانی میں ڈوبتے ابھرتے پہنچے اب حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب تمام بچوں کے لیے بے حد فکرمند دروازے پر کھڑے انہیں خوش آمدید کہہ رہے تھے اور سب کی خیریت دریافت کر رہے تھے۔ اس دن پیپر کے بعد تمام بچوں کو اکٹھا کیا گیا اور انہیں ابتدائی طبی امداد کے بارے میں کافی مفید معلومات فراہم کی گئیں۔ اور قدرتی آفات کے دوران مختلف طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی تربیت فراہم کی گئی۔ اس عمر میں سکھائی گئی باتیں آنے والے سالوں میں وقتا فوقتا کام آئیں۔

شاید آپ میں سے کچھ لوگوں کو یاد ہوکہ ایک زمانے میں سال میں ایک بار شہری دفاع کی تربیت کے لیے بھی ایک ٹیم آیا کرتی تھی اور تمام بچوں کو تقریبا ایک ہفتہ کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تربیت دی جاتی تھی۔ پھر اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں NCC کے نام سے بھی بچوں کی جسمانی تربیت کی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔ این سی سی میں حصہ لینے والے بچوں کو کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ یعنی اگر علاقے میں کسی بھی وقت خدانخواستہ کوئی حادثہ یا آفت رونما ہو تو یہ بچے اپنے اردگرد موجود لوگوں کو بچانے اور ان کی مدد کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ ان کی خاکی وردی اور چمکتے ہوئے بیج دیگر بچوں کا خواب ہوا کرتے تھے۔ خیر یہ تو بھلے وقتوں کی باتیں ہیں جب بچوں کو ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ اسکولوں سے نہ جانے کیوں ختم کر دیا گیا۔


آج بھی جب پاکستان میں کہیں بھی سیلاب یا زلزلے سے تباہی ہوتی ہے اور انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے تو دل میں خیال آتا ہے کہ کاش ہم نے اپنے بچوں کو اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تربیت دی ہوتی تو شاید کچھ لوگوں کو بچایا جا سکتا۔ آج ہمارے نوجوان کسی بھی آفت کے بعد لوگوں سے امدادی سامان جمع کر کے ان علاقوں میں تقسیم کرنے کی حد تک تو اپنا کردار ادا کر دیتے ہیں لیکن طالب علموں کی اکثریت کسی مشکل صورتحال میں لوگوں کو بچانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ خاص طور پر ایسے علاقے جو کہ زلزلے کی پٹی پر واقع ہیں یا جہاں پر سیلابی صورتحال کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے، ان علاقوں کے اسکولوں میں اگر دفاعی تربیت کا سلسلہ شروع کیا جائے تو وقت سے پہلے بچوں کی ایک بڑی تعداد امدادی کاموں کے لیے تیار کی جا سکتی ہے۔ جو کہ فوری طور پر مصیبت میں پھنسے لوگوں کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ انتظامات کر پائیں گے۔ لیکن ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم تو سیلاب کی پیشنگوئی کے بعد بھی سوئے رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ پہلے قدرتی آفت آجائے اس کے بعد حکومت کا بیان آئے گا اور پھر اس کے بعد فوج کو الرٹ کیا جائے گا تو پھر ہیلی کاپٹرز آئیں گے اور امدادی کاموں کا سلسلہ شروع ہو گا۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا فعال نظام ترتیب دیں جو وقت پڑنے پر فوری طور پر انسانی جانوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

پاکستان میں حالیہ سیلابوں سے ہونے والی تباہی ہمارے لیے ایک سبق ہونا چاہیے۔ اس سال سیلابی ریلا جس طرح پورے پاکستان میں تباہی مچاتا رہا، کروڑوں لوگوں کو اپنے سامنے بے بس کے رکھا۔ ایسی تباہی ہم نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی اور ساتھ ہی یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ اس سلسلے میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے تو اس وقت سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو چکا لیکن آگے کا لائحہ عمل طے کر لیا جائے تو کسی اور متوقع قدرتی آفت آنے پر وقت اور انسانی جانوں کے زیاں سے بچا جا سکتا ہے۔ ہمیں فوری طور پر اسکولوں میں اور مختلف اداروں میں لوگوں کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ریسکیو اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ آج کل اسکول کالجوں میں عموماً بچوں کو سمر کیمپ میں بھیجا جاتا ہے۔ ان سمر کیمپس میں اگر ایسی تربیت کا سلسلہ بھی شامل کرلیا جائے تو کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اور اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ تربیت صرف شہری علاقوں تک ہی محدود نہ ہو بلکہ اس کا سلسلہ دہی علاقوں میں خاص طور پر شروع کرنے کی ضرورت ہے، جہاں ایسی آفات کا آنا متوقع ہے۔ ایسے ادارے جو کہ ڈیزاسٹرمینجمنٹ کی خدمات پر مامور ہیں انہیں اپنے تربیتی عملے کی تعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔


2016ء میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سکول سیفٹی فریم ورک پروگرام کا آغاز کرے گی، جس میں 1500 اساتذہ کرام اور 400,000 طالب علموں کو قدرتی آفات کی صورت میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جانا تھی۔ 2018ء کے اختتام تک اس کا پائلٹ پروجیکٹ ہی مکمل ہو سکا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے ان کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ جب بھی ملک میں کوئی ہنگامی صورت حال درپیش ہوتی ہے تو ہمیں فوج کی مدد طلب کرنا پڑتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کا ادارہ اتنا مضبوط ہو سکتا ہے جو کہ ہر مشکل صورت حال کے لیے تیار ہوتا ہے تو پھر حکومت کے سول سسٹم کا کیا کردار ہے۔ ضلعی یا تحصیل کے لیول پر کوئی تو ایسا حکومتی ادارہ موجود ہو، جس کے پاس ہنگامی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی لائحہ عمل یا کوئی انتظامات ہوں۔ موجودہ صورتحال نے یہ بھید کھولا کہ سول ادارے تو اس قابل بھی نہیں تھے کہ نقصان کا تخمینہ لگا سکیں یا کم از کم انہیں یہ اندازہ ہو کہ کتنے لوگ کہاں پھنسے ہوئے ہیں اور ان تک کیسے پہنچا جائے۔

دیکھا گیا ہے کہ ہمارے یہاں کسی بھی حادثے یا آفت کی صورت میں یا تو علاقے کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پہنچتے ہیں یا پھر فلاحی تنظیموں کے کارکنان مستعد ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اسکول اور کالج کی سطح پر طالب علموں کو تربیت دیں یا پھر چھوٹے علاقوں میں مختلف ٹیمیں بنا کر لوگوں کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جائے تو کسی بھی حادثے سے یا آفت کے رونما ہونے پر لوگ امدادی ٹیم کا انتظار کیے بغیر فوری طور پر اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف اپنی جان بچا سکیں گے بلکہ ان کے لیے اپنے ساتھ پھنسے ہوئے دوسرے لوگوں کی مدد کرنا بھی ممکن ہو گا۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔