نئی دہلی میں اسکولوں کی ڈیجیٹل نگرانی پر سلامتی کے خدشات

دہلی میں زیادہ سے زیادہ اسکول حفاظت کے طور پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ نابالغوں کی فوٹیج محفوظ نہیں ہے اور ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین کے تحت اس کا احاطہ کرنے کی ضرورت ہے۔

نئی دہلی میں اسکولوں کی ڈیجیٹل نگرانی پر سلامتی کے خدشات
نئی دہلی میں اسکولوں کی ڈیجیٹل نگرانی پر سلامتی کے خدشات
user

Dw

نئی دہلی کے آدرش پبلک اسکول میں جب پرنسپل پرشانت سہگل اپنے دفتر کی کرسی پر بیٹھ رہے ہوتے ہیں توطلباء اپنی صبح کا آغاز پہاڑے یاد کرنے اور نصابی کتابیں پڑھنے سے کرتے ہیں۔ یہ سب کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ سہگل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہر کمرے میں، ہر سیڑھی اور ہر دروازے کے پاس ایک سی سی ٹی وی ہے۔یہ نہیں کہ ہم اس پرشیخی بھگاریں، یہ لازمی ہے۔''

حکومت نے متعدد جرائم کی اطلاعات کے بعد 2017 ء میں طلباء کی حفاظت بڑھانے کے لیے سرکاری اسکولوں کے تمام کلاس رومز میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق،حکومت نے اس منصوبے کو وسعت دی ہے اور جلد ہی پاس ورڈ سے محفوظ پورٹل کے ذریعے والدین کو طلباء کی سی سی ٹی وی لائیو فیڈ فراہم کی جائے گی۔


وزارت تعلیم نے گزشتہ برس دہلی کے اسکولوں کے گیٹس اور دیگر حصوں میں کیمرے لگانے کی ہدایات بھی جاری کی تھیں۔ رہنما خطوط کے تحت اگر ضرورت ہو تو پندرہ دن کی ریکارڈ شدہ فوٹیج اسکول اور ریاستی حکام کے لیے قابل رسائی ہونی چاہیے۔

کیا نگرانی حفاظت کے مساوی ہے؟

دہلی پیرنٹس ایسوسی ایشن کی صدر اپراجیتا گوتم کا کہنا ہے کہ بہت سے والدین نے بڑے پیمانے پر نگرانی کا عمل فوری طور پر قبول کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا،''میں آپ کو اسکولوں میں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی بہت سی مثالیں دے سکتی ہوں۔'' اس بارے میں انہوں نے ایک حالیہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک سرکاری اسکول میں ایک 11 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر دو بالغ افراد نے ٹوائلٹ میں گھسیٹ کر زیادتی کا نشانہ بنایا۔


انہوں نے کہا کہ کیمرہ کی موجودگی مجرموں کے لیے ایک روکاوٹ کا کام کرتی ہے،''کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔'' سہگل نے کہا کہ نگرانی کی فوٹیج نے آدرش پبلک اسکول میں چھوٹی چوریوں اور گمشدہ اشیاء کے معاملات کو حل کرنے میں بھی مدد کی ہے اور یہاں تک کہ اس سےکلاس روم میں رویے کے مسائل کے حل میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

تاہم دہلی کے سرکاری اسکولوں میں ہزاروں طلباء اب مسلسل نگرانی میں ہیں اور اس بارے میں نابالغوں کی فلم بندی کے حوالے سے رازداری کے خدشات ہیں۔ 2019ء میں دہلی کی نیشنل لاء یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک درخواست دائر کی۔ اس درخواست میں دلیل دی گئی کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی بڑے پیمانے پر تنصیب نابالغوں کے پرائیویسی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ درخواست میں کہا گیا، ''یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ کے ساتھ کسی کو بھی لائیو فیڈ فراہم کرنا نوجوان لڑکیوں کی حفاظت اور سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔''


دہلی کے ایک اور بڑے سرکاری اسکول کے پرنسپل نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ اسکولوں کے بعض حصوں میں کیمرے ضروری ہیں لیکن وہ ہر کلاس روم میں کیمرے لگانے کے حق میں نہیں،''بہت زیادہ نگرانی ان کے جذبے کو روک دے گی۔ وہ بڑھتے ہوئے بچے ہیں جنہیں آزاد محسوس کرنے اور یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہمیں ان پر بھروسہ ہے۔''

غیر محفوظ ڈیٹا ؟

ایک ہندوستانی این جی او انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن (آئی ایف ایف) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اپار گپتا کا مؤقف ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے بھلائی سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ آئی ایف ایف نے جولائی میں دہلی کے وزیر اعلیٰ کو لکھے گئے خط میں کہا، ''یہ دہلی کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج تک غیر مجاز رسائی کا باعث بن سکتا ہے، جس سے انہیں ناقابل فہم اور ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔''


دہلی پیرنٹس ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے گوتم نے کہا کہ اس کے گروپ نے خاص طور پر ایک وجہ سے لائیو سٹریمنگ کی مخالفت کی: ''یہ لائیو اسٹاکرز (چھیڑ چھاڑ کرنے والے) پیدا کرے گا۔'' آئی ایف ایف کے گپتا نے کہا کہ ڈیٹا کی حفاظت کے لیے قانون سازی کے بغیر یہ کہنا مشکل ہے کہ بچوں کی نگرانی کی فوٹیج کس طرح استعمال ہوگی یا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

2018 میں، قانون سازوں نے ڈیٹا جمع کرنے، ذخیرہ کرنے اور شیئر کرنے کے طریقہ کار کو منظم کرنے کے لیے ذاتی ڈیٹا پروٹیکشن بل متعارف کرایا تھا۔ تاہم کئی سال گزرنے اور نظرثانی کے بعد بھی یہ قانون پاس ہونا ابھی باقی ہے۔


2017 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں رازداری کو ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا، جس کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔ وزارت تعلیم نے اسکولوں میں سی سی ٹی وی فوٹیج کی حفاظت پر تبصرہ کرنے کے لیے ڈی ڈبلیو کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔