ڈنمارک ميں ’رضامندی‘ کے بغير جنسی عمل اب ريپ مانا جائے گا

رضامندی کے بغير جنسی عمل ريپ ہے مگر اس سلسلے ميں یورپی ملکوں میں قانونی فريم ورک غير واضح ہے۔ تاہم اب ڈينش پارليمان نے ايسی اصلاحات کی منظوری دے دی ہے جن کے تحت جنسی عمل ميں ’نہ‘ کی اہميت بڑھ جائے گی۔

ڈنمارک ميں ’رضامندی‘ کے بغير جنسی عمل اب ريپ مانا جائے گا
ڈنمارک ميں ’رضامندی‘ کے بغير جنسی عمل اب ريپ مانا جائے گا
user

ڈی. ڈبلیو

'رضا مندی‘ کے بغير جنسی عمل ريپ ہے مگر اس سلسلے ميں یورپی ممالک میں قانونی فريم ورک غير واضح ہے۔ تاہم اب ڈينش پارليمان نے ايسی اصلاحات کی منظوری دے دی ہے، جن کے تحت کسی بھی قسم کے جنسی عمل ميں 'نہ‘ کی اہميت بہت بڑھ جائے گی۔

کرسٹين ہولسٹ کو ان کے ساتھی نے آدھی رات کو اٹھايا اور لاکھ منع کرنے کے باوجود زور زبردستی شروع کر دی۔ اس نے کرسٹين کے منع کرنے کے باوجود سيکس کرنے کی کوشش کی۔ کرسٹين نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ''ميں سمجھ نہيں پا رہی تھی کہ ميرے ساتھ کيا ہو رہا ہے۔ ميرا اس کے ساتھ کوئی رومانونی تعلق نہ تھا اور شايد وہ يہ بات سمجھ نہيں پا رہا تھا کہ ميں اس ميں دلچسپی نہيں رکھتی۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ ميرے گلے پر رکھا اور تب مجھے احساس ہوا کہ شايد ميری زندگی خطرے ميں ہے۔‘‘


يہ واقعہ اس وقت پيش آيا جب کرسٹين اپنے کام کے سلسلے ميں کوپن ہيگن ميں تھيں اور ايک رات کے ليے اپنے دوست کے گھر ميں تھيں۔ وہ شخص جس نے کرسٹين کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی، در اصل ان کا دوست ہی تھا۔

کرسٹين نے مزيد بتايا، ''ميں اس کے ساتھ جھگڑی نہيں۔ ميں نے بات کر کے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر جب مجھے احساس ہوا کہ وہ ماننے والے نہيں، ميری ہمت ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ميرے ليے بہت تکلنف دہ تھا۔‘‘


قانون ميں گنجائش موجود

کرسٹين کو اس نتيجے پر پہنچنے ميں وقت لگا کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ در اصل جنسی زيادتی کے زمرے ميں آتا ہے۔ انہوں نے پوليس ميں رپورٹ درج کرائی اور مذکورہ شخص پر مقدمہ بھی چلا۔ مگر وہ بری ہو گيا۔ عدالت ميں جج نے يہ تسليم کيا کہ کرسٹين نے مذکورہ شخص کے جنسی حملے کو روکنے کی کوشش کی مگر ان کے وکيل يہ ثابت نہ کر پائے کہ حملہ آور نے انہيں نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور يوں وہ بری ہو گيا۔


ايسے جنسی حملوں کے دوران ہمت ہار کر سب کچھ چھوڑ دينا، جسے انگريزی ميں فريزنگ کہا جاتا ہے، ريپ کے واقعات ميں اکثر اوقات ہوتا ہے مگر قانون ميں اسے جرم قرار ديے جانے کے معاملے ميں ابھی گنجائش موجود ہے۔ ديگر کئی يورپی ملکوں کی طرح ڈنمارک ميں بھی ريپ کو بھی متاثرہ شخص کی رضامندی يا ممانعت کے تناظر ميں نہيں ديکھا جاتا۔ بلکہ متاثرين کو يہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ريپ کرنے والے ملزم نے انہيں ڈرايا، دھمکايا يا جسمانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

ليکن اب يہ بدل رہا ہے۔ جمعرات کو ڈينش قانون سازوں نے ريپ ميں متعلق ملکی قوانين ميں اصلاحات منظور کر ليں، جن ميں رضامندی کا عنصر اہم ہے۔ تراميم کے بعد جنسی تعلق خواہ اس ميں جسمانی تشدد کا عنصر موجود نہ ہو، اگر مرضی کے بغير قائم ہوا ہو، تو اسے قانوناً ريپ مانا جائے گا۔


اس پيش رفت کے بعد ڈنمارک ان بارہ يورپی ممالک کی فہرست ميں شامل ہو گيا ہے، جہاں مرضی کے بغير جنسی تعلق قانوناً ريپ مانا جاتا ہے۔ ان ملکوں ميں جرمنی، سويڈن اور برطانيہ شامل ہيں اور اسپين اور ہالينڈ ميں بھی يہی قوانين زير غور ہيں۔

کرسٹين ہولسٹ کے کيس ميں فيصلہ آ چکا ہے مگر حکام کو توقع ہے کہ ڈنمارک ميں اس اصلاح کے بعد آئندہ کے کيسز ميں مرضی کے بغير زبردستی کرنے والے افراد کو سخت سزائيں مل سکيں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔