ٹائیگر فورس کا سپہ سالار

گزشتہ کئی دنوں سے ہم اسلام آباد کی سڑکوں پر "راستہ تلاش کریں" کھیل رہے ہیں۔ رکاوٹوں نے عام شہریوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ فاصلہ طے کرنے میں بھی گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ عوام کس سے اپنا دھکڑا روئیں؟

ٹائیگر فورس کا سپہ سالار
ٹائیگر فورس کا سپہ سالار
user

Dw

کسی دانا کا قول ہے کہ طاقت، دولت، شہرت اور اختیار (یا اقتدار) انسان کو بدلتے نہیں، بے نقاب کر دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں میں تو شاید قوانین پر عمل در آمد یا اعلٰی اخلاقی اور سماجی اقدار نے حالات کچھ بدل دیے ہوں لیکن ترقی پذیر دنیا میں سماجی برتری کے حصول کی خواہش کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ خود سے کم زور، مفلس، بے نام اور بے اختیار کو جی بھر کر رسوا کرنا۔

مانیں یا ناں، ہم ایسے ہی ہیں۔ زیادہ دور کیوں جائیں، کسی سرکاری دفتر کے چپڑاسی، قاصد یا چوکیدار سے بھی جن احباب کو واسطہ پڑ چکا ہے وہ اس کیفیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔


گزشتہ کئی دنوں سے اسلام آباد کی سڑکوں پر "راستہ تلاش کریں" کھیل رہے ہیں۔ کرال چوک سے پہلے رکاوٹیں لگی ہیں کہ آگے احتجاج کا جمہوری حق استعمال ہو رہا ہے، لہذا کاروبار کی غرض سے نکلنے والے جہنم میں جائیں۔ پنڈی سے اسلام آباد جانے والے تمام راستے بند ہیں، ایسے میں دو ہی صورتیں میسر ہیں، سر نیہواڑے چپکے سے واپس گھر کی راہ لیں یا پھر تنگ گلیوں سے گزرتے "متبادل راستوں" پر پھنسی ٹریفک میں دن گزار دیں۔

آج کا قصہ کچھ مختلف تھا۔ امید تھی کہ تیز بارش نے شاید جمہور کے بھڑکتے جذبات کا آلاؤ کچھ ٹھنڈا کر دیا ہو۔ ہم اسی غلط فہمی میں موقع کا فائدہ اٹھانے کی نادانی کر بیٹھے۔ جیسے ہی چوک پار کیا تو کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے سے ایک ہیرو منہ سے کف اُڑاتے، لاٹھی لہراتے ہماری طرف لپکے اور اس گستاخی پہ سخت برہمی کا اظہار کرنے لگے۔ جب ہاتھ میں ڈنڈا ہو اور سامنے نہتے لوگ، تو خوداعتمادی آسمان کو کیوں نہ چھوئے؟


ڈنڈا دیکھتے ہی ہم نے عاجزی کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر عرض کی بھائی!! گاڑی میں مریض ہیں۔ ڈنڈا بردار ہیرو نے گاڑی کے ارد گرد ایک چکر لگایا، شیشوں سے اندر تانک جھانک کر کے موقع کا جائزہ لیا اور پھر کچھ سوچ میں پڑ گئے۔ ہماری دوبارہ دست بدستہ درخواست پر کچھ توقف کے بعد کمال مہربانی سے احتجاجی کیمپ کے پاس سے گزرنے کی اجازت دے دی۔

عوام کے اس بپھرے ہوئے سمندر کے کنارے سے گزرتے آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں، جس پر زور احتجاج کی وجہ سے تین روز خواری میں گزرے، اس مبینہ کیمپ میں ایک تمبو کے نیچے بہ مشکل درجن بھر لوگ موجود تھے۔ بھیگے موسم میں اس سے زیادہ رش کسی بھی پکوڑے، سموسے والی دکان پہ ہوتا ہو گا۔


احتجاج کرنے والے تو خدا جانے کسے کوس رہے تھے مگر اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ قانون کے وہ محافظ تھے، جو اپنے تئیں عوام کی حفاظت پر معمور ہیں۔ چوں کہ ان کو حکم دینے والوں کا اختیار اس سڑک سے آگے نہیں ہے تو وہاں پر ایک دوسرا محافظ گروپ یوں تعینات ہے، جیسے دو فوجیں آمنے سامنے صف آراء یلغار کے حکم کی منتظر ہوں۔

طاقت اور اختیار کے استعمال کی جو روش ہمارے ہاں رائج ہے، اس کی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ ہماری تو فلمیں بھی انہی موضوعات پر بنتی رہی ہیں، جن میں ہیرو ماضی کے دکھوں اور تلخیوں کو دل میں دبائے، بدلے کی آگ میں جلتا دن رات ایک کر دیتا ہے۔ جہاں اس کا حوصلہ کچھ کم ہوا یا ہیروئن کے چکر میں راستے سے بھٹکا، موٹی عینک لگائے، سلائی مشین پر کپڑے سیتی اس کی ماں دو چار جلی سڑی سنا کر اس کا قبلہ درست کر دیتی ہے۔ اور یوں ایک دن طاقت اور اختیار ملتے ہی فلم کے آخری مناظر میں ہیرو ولن کو چھٹی کا دودھ یاد دلا کر ہنسی خوشی رہنے کے لیے چلا جاتا ہے۔


جو ہوا سو ہوا، لیکن ڈنڈا برداروں کی نفسیات کے متعلق جو گُتھی آج سلجھی اس کے لیے تین دن کی ریاضت، مہنگا سودا ہرگز نہیں ہے۔

ڈنڈا: طاقت، قوت اور اختیار کی علامت ہے اور یہ تینوں صفات اپنی سرشت میں اندھی، بہری اور بے حس تو ہیں لیکن گونگی ہر گز نہیں۔ اندھی طاقت اظہار کے راستے ٹٹولتی ہے اور بالادستی کا نشہ کسی بھی اخلاقی اور معاشرتی اقدار سے یکسر لا تعلق ہوتا ہے۔ یہ بھولا ہوا سبق یاد کروانے پر ٹائیگر فورس کے اس معصوم مقامی سپہ سالار کا شکریہ۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔