سردی سے بچنے کے لیے لوگوں میں پیدا ہوئی جیل جانے کی خواہش

غیر معمولی سردی کی لہرکے دوران قومی دارالحکومت دہلی میں بے گھر افراد خود کو سردی سے بچانے کے لیے ایک نادر طریقہ اپناتے ہوئے چھوٹے موٹے جرائم کر کے جیل جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

بھارت :سردی سے بچنے کے لیے جیل جانے کی خواہش
بھارت :سردی سے بچنے کے لیے جیل جانے کی خواہش
user

ڈی. ڈبلیو

یہ انکشاف اس وقت ہوا جب جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے جیل کمپلکس دہلی کی تہاڑ جیل میں پچھلے چند دنوں کے دوران قیدیوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوگیا۔ تہاڑجیل حکام کے مطابق گزشتہ پیر کو قیدیوں کی تعداد تقریباً سولہ ہزار ہوگئی جب کہ وہاں صرف لگ بھگ دس ہزار قیدیوں کے لیے ہی گنجائش ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان نئے قیدیوں میں بیشتر بہت چھوٹے جرائم مثلاً جیب تراشی اورچاقو لے کر چلنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے تھے۔ حکام نے گزشتہ برس کے تجربہ کی بنیاد پر بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ بہت سے افراد خود جیل جانا چاہتے تھے کیوں کہ وہ کھلے آسمان میں سرد راتیں گزارنے کے مقابلے میں جیل کی چہار دیواری کو اپنے لیے ’زیادہ محفوظ اور آرام دہ‘ محسوس کرتے ہیں۔
دراصل بھارت ان دنوں سخت سردی کی گرفت میں ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ دسمبر دہلی میں پچاس برسوں کے دوران تیسرا سرد ترین دسمبر رہا۔ گزشتہ مسلسل دس دنوں تک رات میں درجہ حرارت چھ ڈگری سے نیچے رہا، جوکہ پچھلے تیرہ برسوں میں سب سے طویل دورانیہ ہے۔ اس دوران کم از کم درجہ حرارت دو اعشاریہ چھ ڈگری تک گر گیا۔
سردی سے بچنے کے لیے جیل جانے کے خواہش مند یہ قیدی بالعموم چھوٹے جرائم کے الزام میں تین ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح جاڑے کا موسم آسانی سے گزر جاتا ہے۔ جیل میں قید کے دوران جہاں وہ رہائش کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں وہیں انہیں مفت میں گرما گرم کھانا، کمبل اور دودھ بھی مل جاتا ہے۔ جیل میں واقع اسپتال میں علاج کی مفت سہولت بھی دستیاب ہے اور اگر وہ کام کرنا پسند کریں تو جیل کے اندر واقع چھتیس چھوٹے کارخانوں میں سے کسی میں کام کر کے پیسے بھی کما سکتے ہیں۔
جیل کے ایک افسر کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’قیدیوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ کچھ قیدی جاڑے کا موسم گزارنے کے لیے خود کو گرفتار کروا لیتے ہیں۔ ایسے قیدیوں کی حتمی تعداد تو معلوم نہیں ہے تاہم ان کی تعداد درجنوں میں ہے اور یہ تعداد دسمبر ، جنوری اور فروری کے مہینے میں بڑھ جاتی ہے۔ ان میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو سڑکوں یا فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔‘‘
تہاڑ جیل میں قیدیوں کے لیے لاء افسر کے طور پر کام کرنے والے سنیل گپتا بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’تہاڑ جیل میں دستیاب بعض سہولیات باہر دستیاب سہولتوں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ تہاڑجیل سے جاری اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری 2018 کو جب دہلی کا درجہ حرارت چار ڈگری تک گر گیا تھا قیدیوں کی تعداد 15488 تھی جب کہ اس سے چھ ماہ قبل یکم جون2017 کو یہ تعداد 15244 تھی۔ سال 2017میں بھی اسی طرح کا رجحان دیکھا گیا تھا۔
بھارت میں 2011 کی تازہ ترین مردم شماری کے مطابق بے گھر افراد کی تعداد 1.77ملین (17,73040) ہے۔ اٹھارہ ملین بے سہارا بچوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ ایک رضاکار تنظیم ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کے مطابق دہلی میں بے گھر افراد کی تعداد ڈیڑھ تا دو لاکھ ہے۔ یوں تو حکومت نے قومی دارالحکومت کے مختلف حصوں میں بے گھر افراد کے لیے عارضی شیلٹر ہومزکا انتظام کیا ہے تاہم ان کی تعداد بہت کم اور ضرورت مندوں کے لیے ناکافی ہے۔ ان شیلٹر ہومز میں، جنہیں ’رین بسیرا‘ کہا جاتا ہے، ضروری سہولتو ں کا فقدان ہے، جس پر سپریم کورٹ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو مناسب اقدامات کا حکم دیا تھا۔ مرکز کی مودی حکومت نے 2022ء تک سب کے لیے مکان فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ تاہم اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے مدنظر مودی حکومت کا یہ انتخابی وعدہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
بے گھر افرادمیں ایسے لوگوں کی بھی خاصی تعداد ہے جو اپنے کنبہ کی پرورش کے لیے گاؤں میں اپنا گھر چھوڑ کر دہلی اور ممبئی جیسے دور دراز شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مزدوری کر کے دن کے اوقات تو کسی طرح گزار لیتے ہیں لیکن رات کا وقت کاٹنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ کم تنخواہ کی وجہ سے کرایہ پر مکان لینا بھی ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ لوگ عام طور پر اپنی راتیں سڑک کے کنارے، فٹ پاتھ پر، بڑے بڑے پائپوں میں، فلائی اوور کے نیچے اور سیڑھیوں پر یا عبادت گاہوں کے باہر کھلے مقامات پر، بس اڈوں اور ریلوے پلیٹ فارموں وغیرہ پر گزارتے ہیں۔
دہلی میں بے گھر افراد کے لیے سب سے زیادہ شیلٹر ہوم چلانے والی رضاکار تنظیم ’پریاس‘ کے سربراہ اوردہلی کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس امود کانت کا بے گھر لوگوں کے جیل جانے کی خواہش کے حوالے سے کہنا ہے، ’’تہاڑ جیل میں قیدیوں کو ملنے والی سہولیات دیگر ریاستوں میں ملنے والی سہولیات کے مقابلے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Jan 2019, 7:27 AM