جرم اور جذبات: نازی مجرم قاتل تو تھا مگر بيٹی کا ’معزز باپ‘

جرمن کے شہر نيورنبرگ کے قريب رُوتھ ميں عمر رسيدہ افراد کے ايک مرکز ميں وقت گزارنے والی اِلزے کے ليے جرم اور جذبات ميں تفريق مشکل ثابت ہوئی۔ ان کا والد ايک نازی مجرم تو تھا، مگر بيٹی کا ’معزز باپ‘ بھی۔

جرم اور جذبات: نازی مجرم قاتل تو تھا مگر بيٹی کا ’معزز باپ‘
جرم اور جذبات: نازی مجرم قاتل تو تھا مگر بيٹی کا ’معزز باپ‘
user

ڈی. ڈبلیو

پچاسی سالہ اِلزے آج بھی اپنے والد کو 'ڈيڈی‘ پکار کر ياد کرتی ہيں۔ جب بھی ان سے کوئی کہتا ہے کہ انہيں اپنے والد کی وجہ سے شرمندہ ہونا چاہيے، تو اِلزے کافی نالاں ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہيں کہ تمام تر حقيقت کے باوجود ان کے والد کے دل ميں تو 'صرف اور صرف ملکی مفاد‘ تھا۔ پھر شرم کيسی؟

اِلزے دوسری عالمی جنگ کے دوران پولش باشندوں کو جرمن بنانے کے عمل کے نگران ايک سابق نازی فوجی افسر کی بيٹی ہيں۔ وہ ہميشہ ہی سے اپنی شناخت ايک نازی کی بيٹی کے طور پر کراتی ہيں۔ اِلزے کا والد ايرش يوليئس ايبرہارڈ فان زيليوسکی آج کے پولش شہر ليبورک ميں يکم مارچ سن 1899 کے دن پيدا ہوا تھا۔ اس کے سر پر کم عمری سے ہی نازی قوم پرست رجحانات سوار تھے۔ پہلی عالمی جنگ کو شروع ہوئے کوئی تين ماہ ہی گزرے تھے کہ فان زيليوسکی جرمن فوج ميں بھرتی ہو گيا۔ ايک سال کی سروس کے بعد اسے اعلیٰ فوجی اعزاز 'آئرن کراس‘ سے نواز ديا گيا اور اٹھارہ برس کی عمر ميں ترقی دے کر اسے ليفٹيننٹ کے عہدے پر تعينات کر ديا گيا۔


1930ء ميں ايرش يوليئس ايبرہارڈ فان زيليوسکی نے اپنے پيدائشی نام کے ساتھ 'باخ زيليوسکی‘ کا نام بھی جوڑ ليا۔ وہ اسی سال نازی پارٹی (NSDAP) کا حصہ بھی بن گيا اور پھر ايک سال بعد نازی پارٹی کی ذيلی عسکری تنظيم ايس ايس کی رکنيت اختيار کر لی۔پھر 1932ء ميں اسے 'رائش ٹاگ‘ يا جرمن پارليمان کی بھی رکنيت مل گئی۔ اپنے افسران ميں 'ايک اچھے قوم پرست سوشلسٹ، ايماندار، وفا دار اور اچانک فيصلے کرنے والے‘ کے طور پر ديکھے جانے والے باخ زيليوسکی کو نومبر سن 1939 ميں ايک نيا کام سونپا گيا: آج کل پولينڈ کے علاقے سيليسيا ميں 'پولش باشندوں کو جرمن بنانے کا عمل‘۔ آئندہ سالوں ميں باخ زيليوسکی يہوديوں کے قتل عام ميں ملوث رہا۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر الائيڈ فورسز کے زير انتظام خصوصی فوجی ٹريبيونلز منعقد ہوئے جنہيں 'نيورنبرگ ٹرائنلز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاريخی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ بيس نومبر سے شروع ہونے والے اس مرحلے ميں ايرش فان ڈيم باخ ايک گواہ کی حيثيت سے شريک ہوا نہ کہ ايک ملزم کے طور پر۔ فان ڈيم باخ نے اپنا پولش نام 'زيليوسکی‘ سن 1940 ميں ترک کر ديا تھا۔ اگست 1945ء ميں اس نے خود کو امريکيوں کے حوالے کر ديا۔ تاريخی دستاويزات مطابق گواہی کے بدلے امريکيوں نے اسے جنگی جرائم کے ملزم کے طور پر پولينڈ يا سويت يونين کے حوالے نہيں کيا۔ اس پر کوئی فرد جرم بھی عائد نہيں کی گئی تاہم نظر بندی ميں ضرور رکھا گيا۔


اِلزے اس وقت جوان تھيں۔ وہ ہر ماہ ايک مرتبہ اپنے والد سے ملنے نيورنبرگ جايا کرتی تھيں۔ اخبارات وغيرہ زيادہ پڑھنے کا شوق نہيں تھا۔ وہ خود کو تمام تر منفی خبروں سے دور رکھنا چاہتی تھيں۔ دوسری جانب ايرش فان ڈيم باخ کی گواہی کی بدولت انسانيت کے خلاف جرائم ميں ملوث کئی نازی کمانڈروں کو سزائيں سنا دی گئيں۔

ايرش فان ڈيم باخ 'نيورنبرگ ٹرائلز‘ ميں بچ گيا اور کچھ سال بعد ايک نائٹ واچ مين کی حيثيت سے ملازمت کرنے لگا۔ سن 1961 ميں اسے ايک سابق ايس ايس آفيسر کے قتل کے احکامات جاری کرنے پر ساڑھے چار سال کی سزا سنائی گئی۔ پھر ايک سال بعد سن 1930 کی دہائی ميں کئی اور قتل پر اسے عمر قيد کی سزا دے دی گئی۔


جرمن جريدے 'ڈيئر اسپيگل‘ نے سن 1961 ميں اپنی ايک رپورٹ ميں کمرہ عدالت ميں ايرش فان ڈيم باخ کی ايک گفتگو کے بارے ميں لکھا۔ جب ججوں نے اس سے سابق نازی رہنما اڈولف ہٹلر سے اس کے تعلق کے بارے ميں دريافت کيا، تو ايرش فان ڈيم باخ نے ان الفاظ ميں جواب ديا، ''ميں آخری وقت تک ہٹلر کا آدمی تھا۔ ميں آج بھی اس کی بے گناہی ميں يقين رکھتا ہوں۔‘‘ اس وقت عدالت ميں فان ڈيم باخ کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔

اِلزے اپنی پوری زندگی اس بات پر کافی نالاں رہيں کہ ہر کوئی ان سے يہ توقع رکھتا تھا کہ وہ اپنے والد کی وجہ سے شرمندگی محسوس کريں۔ ''ليکن ميں کبھی شرمندہ نہ تھی۔‘‘ اِلزے اپنے والد کو ايک پڑھے لکھے، تاريخ سے واقفيت رکھنے والے، ہنسی مذاق کرنے والے اور ايک بہترين کہانی سنانے والے کے طور پر جانتی ہيں۔


فان زيليوسکی جب قيد سے اپنے اہل خانہ کو خط لکھا کرتا تھا، تو اس نے اپنی غلطيوں کا اعتراف بھی کيا اور يہ بھی کہا کہ جو اسے اپنا سمجھتے تھے، ان کے خلاف سچ بولنا اور گواہی دينا مشکل عمل تھا۔ وہ يہ بھی جانتا تھا کہ نازی جرائم کی وجہ سے جرمنی کو کافی عرصے تک تنقيد کا سامنا رہے گا۔ فان زيليوسکی نے دوران قيد آٹھ مارچ سن 1972 کے دن اپنی آخری سانس لی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔