گیان واپی مسجد تنازعہ میں عدالت کا حکم اور آخر یہ تنازعہ ہے کیا

عدالت نے کہا کہ عبادت گاہوں سے متعلق بھارت کا قانون گیان واپی مسجد تنازعہ کی سماعت کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا۔ ہندو فریق اسے اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہا ہے۔

گیان واپی مسجد تنازعہ میں عدالت نے کیا حکم دیا؟
گیان واپی مسجد تنازعہ میں عدالت نے کیا حکم دیا؟
user

Dw

وارانسی کی عدالت کے جج اے کے وشویش نے 12 ستمبر کو گیان واپی مسجد تنازعہ کیس میں اپنے عبوری حکم میں مسجد کا نظم و نسق سنبھالنے والی 'انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی' کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ سن 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق خصوصی قانون کے مدنظر اس تنازعہ کی سماعت نہیں ہو سکتی۔

ضلع جج نے بعض دیگر قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ متنازعہ مقام پر پوجا کرنے کے حوالے سے دائر کردہ عرضی قابل سماعت ہے اور عدالت اس پر 22 ستمبر کو مزید سماعت کرے گی۔

کیا ہے تنازعہ؟

پانچ ہندو خواتین عرضی گزاروں میں شامل سیتا ساہو نامی خاتون نے عدالت کے حکم کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہم اس فیصلے سے انتہائی خوش ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ جو ہمارا ہے ہم اس پر اپنا دعوی کریں گے۔ اگر احاطے میں ہمیں پوجا کی اجازت دے دی جاتی ہے تو یہ ہمارے لیے اور بھی خوشی کی بات ہو گی۔"

سیتا ساہو نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ انہیں گیان واپی مسجد کمپلیکس کے مغربی دیوار کے پاس مبینہ طور پر واقع 'ماں شرنگار گوری ' کی مورتی تک کسی بھی وقت بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دی جائے۔

سیتا ساہو نے مزید کہا، "ہم تو دراصل ایک اور عرضی داخل کرکے عدالت سے یہ درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں ہمارے مہادیو پائے گئے ہیں، وہاں تک کا علاقہ خالی کرایا جائے۔ ہم اپنے بھگوان کی پوجا کرنا چاہتے ہیں۔"

خیال رہے کہ وارانسی کی عدالت سپریم کورٹ کی ہدایت پر گیان واپی مسجد تنازعہ کی سماعت کر رہی ہے۔ وارانسی عدالت کے حکم پر گیان واپی مسجد کی ویڈیو گرافی کرائی گئی تھی، جس کے بعد ہندوؤں نے دعوی کر دیا کہ مسجد میں وضو کے حوض سے جو سیاہ پتھر والی چیز برآمد ہوئی ہے وہ دراصل شیو لنگ ہے۔ جب کہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ایک فوارہ ہے جو بالعموم مغل دور کی تقریباً تمام مساجد کے حوض میں موجود ہوتا تھا۔

مسلم فریق کا ردعمل

عبادت گاہوں سے متعلق سن1991کے خصوصی قانون کے مطابق 15 اگست سن 1947 کو مذہبی مقامات، جس شکل میں تھے ان میں کوئی تبدیلی یا ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ تاہم ہندو فریق نے اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت میں دلیل دی تھی کہ یہ قانون انہیں کسی مذہبی مقام پر پوجا کرنے سے نہیں روکتا ہے۔

انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کے نمائندہ ایس ایم یاسین نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہو ئے کہا، "ہم عدالت کے حتمی حکم کے منتظر ہیں۔ ہم اگلے قدم کے طور پر یقینی طور پر ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔"

سماجی کارکن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق رہنما سید مسعود الحسن نے عدالت کے حکم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "گیان واپی مسجد اگلی بابری مسجد ثابت ہو گئی۔ اسے اگلے 20 برس کے اندر منہدم کر دیا جائے گا اور اس جگہ ایک مندر تعمیر کر دیا جائے گی۔"

ہندوؤں میں جشن کا سماں

وارانسی عدالت کے جج کا فیصلہ سامنے آتے ہی ہندوؤں نے "ہر ہر مہادیو" کے نعرے بلند کیے۔ ہندو فریق کے وکیل وشنو جین کا کہنا تھا، "یہ ہندو فریقین کی بڑی کامیابی ہے۔ یہ ایک بڑا قدم ہے۔ ایسے کیسز کے لیے یہ ایک فیصلہ کن نظیر ہے۔ یہ میل کا پتھر ہے۔ اس سے آگے کیس کی سماعت کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ اب پورے کیس کی سماعت ہو گی۔"

مرکزی وزیر پرہلاد جوشی کا کہنا تھا، "یہ ہندوؤں کی بہت بڑی جیت ہے۔ میں عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔" ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی اترپردیش کے نائب وزیر اعلی برجیش پاٹھک نے بھی عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ،''پولیس کو امن و قانون برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔