پاکستان: گٹروں کی صفائی کرنے والے بھی اچھے مستقبل کی امید رکھتے ہیں

پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں سیوریج کے گندے پائپوں اور گٹروں کی صفائی کا کام کم مراعات یافتہ مسیحی افراد کرتے ہیں۔

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

گٹروں اور سیوریج کے پائپوں کی صفائی پاکستان کی مسیحی کمیونٹی کے کم مراعات یافتہ طبقے کے افراد کرتے ہیں۔ ایسے افراد کا پاکستان کی مسیحی آبادی میں بھی تناسب بہت معمولی ہے لیکن سارے ملک کے اسی فیصد گٹروں کی صفائی ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ مسیحی آبادی کا یہ طبقہ انگریز دور میں کم تر خیال کی جانے والی ذات کے ہندوؤں سے مشرف بہ مسیحیت ہوا تھا۔ انہوں نے اس دور میں مذہب کی تبدیلی اس باعث کی کہ وہ شاید بہتر مستقبل حاصل کر سکیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستانی معاشرے میں اس کمیونٹی کے لیے انتہائی عامیانہ اور ذلت امیز ترکیب 'چوہڑے‘ کی مستعمل ہے۔ پاکستان کی ایک چھوٹی اقلیت ہندو مت کے ماننے والے بھی بعض علاقوں میں سیوریج کی صفائی کا کام کرتے ہیں۔


شفیق مسیح کی مشقت

لاہور کے اشرافیہ آبادی کے ایک علاقے میں گٹر کے اندر جب شفیق مسیح محض ایک لنگوٹ پہن کر اترا اور پھر جب باہر نکلا تو وہ گٹر کی گار اور گند میں لتھڑا ہوا تھا۔ چوالیس برس کے شفیق کو روزانہ کی بنیاد پر یہی کام مختلف علاقوں میں جا کر کرنا پڑتا ہے۔

شفیق مسیح سے جب اس کام کے حوالے سے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی بھی ان جیسا گٹر میں اترتا ہے تو اسے اپنی عزتِ نفس کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں ٹوائلٹ میں جاتے ہیں اور حاجت سے فارغ ہو کر فلش جب چلاتے ہیں تو ساری غلاظت انہی پر کر گرتی ہے۔


شفیق کو مہینہ بھر گٹروں کی صفائی سے چوالیس ہزار یا دو سو چالیس ڈالر کی کمائی ہوتی ہے۔ اس دوران موت کا بھی خوف لاحق رہتا ہے کیونکہ گٹروں میں غلاظت اور گار سے زہریلی بدبودار گیسیں پیدا ہو جاتی ہیں، جو کسی بھی انسان کو بے ہوش کرنے کے علاوہ بعض اوقات موت کے منہ میں بھی دھکیل دیتی ہیں۔

بعض ملازمتوں کے لیے 'غیر مسلم‘ ہونا لازمی ہے

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں امتیازی سلوک کی ممانعت ہے لیکن اس کا اظہار بدستور مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ بعض مخصوص ملازمتوں کا جب اشتہار دیا جاتا ہے تو اس میں واضح طور پر درخواست دینے والے کے لیے 'غیر مسلم‘ کی شرط رکھی جاتی ہے۔ ان ملازمتوں میں خاص طور گٹر کی صفائی شامل ہے اور یہ شہروں اور قصبوں میں سیوریج کی صفائی میونسپل کونسلوں یا بلدیاتی اداروں کے کنٹرول میں ہے۔ اس کے لیے اب خاکروب کی اصطلاح برسوں پہلے متعارف کرائی گئی تھی۔


ایک مقامی غیر حکومتی تنظیم مرکز برائے قانون اور انصاف کے مطابق کہ گزشتہ ایک دہائی میں قریب تین سو اسامیوں کے اشتہاروں میں 'غیر مسلم‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے حال ہی میں اس امتیازی سلسلے کے خلاف ایک احتجاجی مہم کا آغاز بھی کیا ہے۔

عمر کوٹ کا افسوسناک واقعہ

سن 2017 میں پاکستانی صوبے سندھ کے شہر عمر کوٹ میں مسلمان ڈاکٹروں نے اس لیے ہڑتال کی تھی کہ انہیں رمضان کے مہینے میں گٹر کی صفائی کرنے والے ایک ورکر کا علاج کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ ورکر گٹر میں جب اترا تو اس میں موجود زہرلی گیس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ رمضان میں انہیں پاک صاف رہنے کی ضرورت ہے اور سیوریج کے ورکر کا بدن غلاظت سے بھرا ہوا تھا اور وہ اسے ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے۔


موت سامنے کھڑی ہوتی ہے

سن 2019 سے اب تک گٹر کی صفائی کرنے والے دس ورکر ہلاک ہو چکے ہیں۔ غیر حکومتی تنظیم مرکز برائے قانون اور انصاف کا کہنا ہے کہ یہ تعداد حتمی نہیں اور ایسے مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ کئی کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں دو مسیحی سیوریج ورکر گٹر کی زہریلی گیس کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے اور ان کے تیسرے ساتھی کو کئی دن ہسپتال میں گزارنے پڑے تھے۔ ہلاک ہونے والے مسیحی خاندانوں نے فوجداری رپورٹ بھی درج کرائی کہ ان کے افراد کی موت کی وجہ غفلت اور لاپرواہی پر مبنی عمل کا نتیجہ ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا لیکن ورثا نے عدالت کے باہر معاملہ رقوم لے کر ختم کر دیا۔


گٹر کی زہریلی گیس سے بچ جانے والے ایک ورکر شہباز مسیح کا کہنا ہے کہ جب اُن جیسا کوئی ورکر گھر سے گٹر کی صفائی کے لیے نکلتا ہے تو اسے زندہ واپسی کا یقین نہیں ہوتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔