پاکستان میں ذات پات

پاکستان میں بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ ذات پات کی تقسیم صرف بھارت میں ہے اور یہ پاکستان میں نہیں ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ سماج کے چہرے پر یہ بدنما داغ ’پاک لوگوں کی سرزمین‘ پربھی موجود ہے۔

پاکستان میں ذات پات
پاکستان میں ذات پات
user

Dw

پاکستان میں ذات پات کی یہ تقسیم مخلتف سطحوں پر موجود ہے۔ ماہرین کے خیال میں ہندووں کی شودر ذات سے مسلمان ہونے والے بھی پاکستانی تعصب کا شکار ہیں اور انہیں سماجی سطح پر زیادہ عزت نہیں دی جاتی اور انہیں پاکستانی مسلمان سب سے زیادہ تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

مسلم شیخ کون ہیں


لاہور سے تعلق رکھنے والے سماجی مسائل کے محقق آصف عقیل کا کہنا ہے کہ دلت ذات کی مختلف پرتوں سے اسلام قبول کرنے والے لوگوں کی سماجی حیثیت نہیں بدلی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مورخین کا خیال ہے کہ چُوڑا، بھیل، کوہلی، میگھواڑ اور باگڑی سمیت دلتوں کی کوئی تین ہزار ذیلی ذاتیں ہیں۔ ان ہی میں سے کئی ذاتوں نے برسوں پہلے اسلام قبول کیا اور مسلم شیخ کہلائے۔ آصف عقیل کا دعویٰ ہے کہ انکی ایک بڑی اکثریت بھٹہ مزدوری کرتی ہے۔

تحقیری رویہ


فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے سماجی امور کے ماہر عرفان چوہدری کا خیال ہے کہ ان لوگوں کو مختلف مذاہب میں مختلف نام دیئے گئے، ''مسلمانوں میں انہیں مسلم شیخ یا تحقیر آمیز انداز میں مصلی کہا جاتا ہے، جو انتہائی افسوناک ہے، جبکہ دلتوں کی نچلی ذاتوں نے سکھ مت کو اپنایا تو انہیں مذہبی یا دین دار کہا گیا۔‘‘

محقق آصف عقیل کا کہنا ہے کہ ایسی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کچرا وغیرہ جمع کرتے ہیں۔ پنجاب کے کچھ علاقوں میں یہ سینیٹیشن کے کام بھی کرتے ہیں جیسا کہ مطفر گڑھ، گو کہ ایسا کام کرنے والوں کی اکثریت مسیحیوں کی ہے۔‘‘ عقیل کے مطابق ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد خانہ بدوش ہے اور جھگیوں میں رہتی ہے۔


سندھ میں ذات پات

لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے محقق صوفی غلام حسین کا کہنا ہے کہ سندھ میں نچلی ذات کے ہندووں کا معاملہ ذرا مختلف ہے لیکن وہ بھی پنجاب کی طرح امتیازی سلوک اور تعصب کا شکار ہیں۔ ''سندھ میں ہندووں کی نچلی ذاتوں سے مسلمان ہونے والے اپنے آپ کو صرف شیخ کہتے ہیں۔ اونچی ذات کے ہندو سنجگوگی شیخ کہلاتے ہیں۔‘‘


ان کا مزید کہنا ہے کہ نچلی ذات کے لوگوں کی بستیاں مرکزی آبادی سے دور ہوتی ہیں اور کوئی باہر کی ذات والا ان میں شادی نہیں کرتا۔ صوفی غلام حسین کا کہنا ہے کہ کچھ علاقوں میں ان کے گھر یا جھگیوں کو اس طرح بننے نہیں دیا جاتا کہ شمال سے ہوا ان کے گھروں سے ہو کر نا جائے کیونکہ عام مسلمانوں کے خیال میں ایسی ہوا نا پاک ہو سکتی ہے۔

صوفی غلام حسین کے مطابق ان میں کوئی بڑا سیاست دان یا نامورآدمی پیدا نہیں ہوا کیونکہ سماج نے ان کی ترقی کے تمام راستے مسدود کر رکھے ہیں۔


امتیازی سلوک

کئی مورخین کا دعوی ہے کہ نچلی ذاتوں نے اسلام اس لئے قبول کیا تھا کہ انکی سماجی حیثیت میں فرق آئے لیکن اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے امر لال کا خیال ہےکہ ایسا نہیں ہے۔ ''وہ آج بھی سماج کی نچلی پرتوں پر ہیں۔ زیادہ تر افراد محنت و مزدوری کرتے ہیں لیکن سماج ان کو عزت دینے کے لئے راضی نہیں۔‘‘


پنجاب کے علاقہ تلہ کنگ سے تعلق رکھنے والے مسلم شیخ عمران شوکت کا کہنا ہے کہ ان کی برادری کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ''پولیس جب چاہتی ہے ہمارے لوگوں کو پکڑ لیتی ہے۔ نہ ہمارے پاس تعلیم ہے، نہ گھر اور نہ صحت۔ ہمارے لوگوں کی اوسط عمر پینتیس سے چالیس سال ہے کیونکہ کوئی معمولی آپریشن بھی کرانے کی ہم مالی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘

تعصب جان نہیں چھوڑتا


تلہ کنگ سے ہی تعلق رکھنے والی مقصودہ بی بی کا کہنا ہے کہ اس کی نسلوں میں کسی نے بھی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ''تعلیم کہاں سے حاصل کریں۔ ہمارے پاس تو کھانے کے لئے روٹی بھی مشکل سے آتی ہے۔ ہم جھگیوں میں رہتے ہیں اور کچرا جمع کرتے ہیں۔‘‘

مسلم شیخ برادری سے تعلق رکھنے والے پنڈی کے شہری محبوب سلطان کا کہنا ہے کہ دیہات میں تعصب زیادہ ہے لیکن شہروں میں بھی امتیازی سلوک ہماری جان نہیں چھوڑتا، ''اگر ہم میں سے کوئی پڑھ لکھ جاتا ہے تو اس کو اپنی ذات چھپانی پڑتی ہے۔ ذات کی وجہ سے نوکریاں نہیں ملتی تو نوجوان جرائم کی طرف بھی راغب ہوتے ہیں۔‘‘


دراوڑ نسل ہونے کا دعوی

مسلم شیخ برادری کا دعوی ہے کہ وہ دراوڑ ورثہ کی امین ہے۔ پاکستان میں اس برادری کے لئے کام کرنے والے اعجاز نصیری، جن کا تعلق چینیٹوٹ سے ہے، کا دعوی ہے کہ ان کی برادری قدیمی آبادی دڑاوڑ نسل کی ہے۔ نصیری کے مطابق ''ہم پورے ملک میں اپنی برادری کو متحد کررہے ہیں اور اس مقصد کے لئے ان کی تعلیم اور تربیت پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔‘‘


تاہم آصف عقیل سمیت کئی دوسرے محققین ایسے دعووں کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور ان کے خیال میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ میں بھی ذات پات کا نظام تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔