پولینڈ: شرح پیدائش دوسری عالمی جنگ کے بعد نچلی ترین سطح پر

پولینڈ میں حکام نے بتایا ہے کہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں شرح پیدائش دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے اب تک کی نچلی ترین سطح پر آ گئی ہے۔ گزشتہ برس پولینڈ کی آبادی میں تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ کی کمی ہو گئی۔

پولینڈ: شرح پیدائش دوسری عالمی جنگ کے بعد نچلی ترین سطح پر
پولینڈ: شرح پیدائش دوسری عالمی جنگ کے بعد نچلی ترین سطح پر
user

Dw

پولینڈ کے مرکزی شماریاتی ادارے نے بتایا کہ گزشتہ برس اس مشرقی یورپی ملک میں نومولود بچوں کی تعداد 2021ء کے مقابلے میں 27 ہزار کم رہی۔ 2022ء میں پورے پولینڈ میں صرف تین لاکھ پانچ ہزار بچے پیدا ہوئے۔

یہ بات ملکی حکام کے لیے اس وجہ سے تشویش کا باعث ہے کہ گزشتہ برس پولینڈ میں مجموعی طور پر تین لاکھ پانچ ہزار بچے پیدا ہوئے مگر ساتھ ہی چار لاکھ 48 ہزار شہری انتقال بھی کر گئے۔ یوں جرمنی کے ہمسایہ اس یورپی ملک کی آبادی میں 2022ء میں ایک لاکھ 41 ہزار کی کمی ریکارڈ کی گئی۔


یورپی یونین کا آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک

پولینڈ یورپی یونین کے رکن 27 ممالک میں سے اس بلاک میں شامل مشرقی یورپی ریاستوں میں سے ایک ہے اور اپنی مجموعی آبادی کے لحاظ سے اس یونین کے رکن بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی ہے، جس کے بعد فرانس، اٹلی اور اسپین جیسے ممالک کے ساتھ ساتھ پولینڈ کا نام بھی آتا ہے جبکہ کئی رکن ممالک کی قومی آبادی تو محض چند ملین بنتی ہے۔ ایسے چھوٹے ممالک میں بالٹک کی تینوں جمہوریائیں اور سلووینیہ، قبرض اور مالٹا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔


پولستانی شماریاتی ایجنسی کے مطابق گزشتہ برس پولینڈ کی مجموعی آبادی تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ کی کمی کے ساتھ 37.8 ملین سے تھوڑی سی ہی کم بنتی تھی۔ اس ملک کی آبادی میں کمی کا رجحان 2013ء سے دیکھنے میں آ رہا ہے، جو ابھی تک جاری ہے۔

شرح پیدائش کے حوالے سے حکومتی مراعات

سماجی طور پر پولینڈ کیتھولک مسیحی اکثریتی آبادی والا معاشرہ ہے اور قدامت پسند حکمران جماعت قانون اور انصاف پارٹی (پی آئی ایس) کی حکومت عام شہریوں کو کئی طرح کی مراعات دے کر اور اسقاط حمل سے متعلق سخت قوانین کے ساتھ یہ کوششیں کر رہی ہے کہ ملکی آبادی میں کمی کو اضافے میں بدل دیا جائے۔


ایسی جملہ حکومتی کوششیں تاہم اب تک آبادی میں اضافے کی حکومتی خواہش کو عملی شکل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔

پولینڈ کی اپوزیشن اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ملکی تنظیموں کے مطابق حکومت نے اسقاط حمل سے متعلق جو قوانین دو سال پہلے مزید سخت کر دیے تھے، ان کا سماجی طور پر اور ملکی شرح پیدائش میں اضافے کے ہدف کو حاصل کرنے کے سلسلے میں فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔