جذبہ خدمت سے سرشار بلقیس ایدھی کو سپرد خاک کر دیا گیا

ان چاہے اور لاوارث بچوں کی 'ممی‘ اور مادر پاکستان بلقیس بانوایدھی کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ میوہ شاہ قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا ہے۔

جذبہ خدمت سے سرشار بلقیس ایدھی کو سپرد خاک کر دیا گیا
جذبہ خدمت سے سرشار بلقیس ایدھی کو سپرد خاک کر دیا گیا
user

Dw

بلقیس ایدھی کی نمازِ جنازہ کراچی کی میمن مسجد کھارادر میں ادا کی گئی جس میں بڑی تعداد میں عوام کے علاوہ حکومتی شخصیات بھی موجود تھیں۔ اس موقع پروزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ بلقیس ایدھی کےانتقال پرسندھ حکومت ایک دن کا سوگ منارہی ہے۔

گزشتہ روز پاکستان کے نامور فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کی شریک سربراہ بلقیس ایدھی 74 سال کی عمر میں کراچی کے نجی اسپتال میں دوران علاج انتقال کر گئیں تھیں جہاں وہ ایک ماہ سے زیر علاج تھیں۔ ترجمان ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق وہ عارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا تھیں۔


بلقیس ایدھی کی زندگی اور جذبہ خدمت

سماجی خدمات کے حوالے سے بلقیس بانوایدھی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ عوامی خدمات کے حوالے سے اپنی مثال آپ شخصیت مرحوم عبدلاستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس بانو ایدھی سن1947 میں پیدا ہوئیں۔ محض 16 سال کی عمر میں ایدھی صاحب کے قائم کردہ نرسنگ ٹریننگ اسکول میں داخلہ لیا اور نرسنگ کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ ان کی محنت، لگن اور جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے ایدھی صاحب نے نرسنگ کے اس ادارے کی ذمہ داریاں انہیں سونپ دیں۔ یہ وہ دور تھا جہاں اس شعبے کی طرف خواتین کا بہت کم رجحان تھا۔

بلقیس بانو نے اس ادارے میں دو برس تک جانفشانی اور انتہائی لگن کے ساتھ کام کیا اور یہی محنت اور جذبہ ہی عبدالستار ایدھی کے دل میں بھی گھر کر گیا۔ یوں 1966ء میں بلقیس بانو، عبدالستار ایدھی کی رفیق حیات بن گئیں۔


ایدھی صاحب سے شادی کے بعد بلقیس ایدھی نے نہ صرف ڈسپینسری کے لیے خدمات سرانجام دیں بلکہ ہزاروں لاوارث اور ان چاہے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے جگہ جگہ جھولے لگانے کی مہم، بچوں کو گود لینے، ان کی دیکھ بھال کرنے، غریب لڑکیوں کی شادی کروانے اور میٹرنیٹی ہوم جیسے کئی منصوبوں کا آغاز ایدھی کے ساتھ مل کر کیا اور انہیں مکمل طور پر سنبھالا۔

بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن

ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں سے متعلق فلاحی کاموں کے لیے بلقیس ایدھی نے بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی بھی بنیاد رکھی۔ یہ فاؤنڈیشن لاوارث بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر لاوارث اور بے گھر لڑکیوں کی شادیاں کروانے کی ذمہ داری انجام دیتی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا کام بلقیس ایدھی اپنی دو بیٹیوں اور الگ عملے کے ساتھ دیکھتی رہیں ہیں۔


جھولا پراجیکٹ

بلقیس ایدھی کے نمایاں ترین فلاحی کاموں میں سے ایک نوزائیدہ بچوں کی زندگی بچانے کے لیے شروع کیا جانے والا جھولا پراجیکٹ ہے۔ پاکستان بھر میں قائم ایدھی فاؤنڈیشن کے ہر مرکز کے باہر ایک جھولا رکھا ہے جس پر لکھا ہے 'بچوں کو قتل نہ کریں، جھولے میں ڈال دیں‘۔ ان جھولوں میں لوگ ایسے بچوں کو خاموشی سے ڈال جاتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے خاندان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے۔ ان بچوں کو ایدھی سینٹر میں پالا پوسا جاتا ہے۔ پھر ایسے بچوں کو بے اولاد والدین کو دینے کے کام کی نگرانی بھی بلقیس ایدھی کی ذمہ داری رہی ہے جس کے تحت اب تک سولہ ہزار سے زائد لاوارث بچوں کوبے اولاد والدین کے حوالے کیا جا چکا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ کئی ہزار خواتین کو پناہ دینے، انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور کسی وجہ سے اپنے گھر سے ناراض ہو کر آنے والی خواتین کی ان کے خاندان کے ساتھ صلح کرا کے انہیں ان کے گھروں تک پہنچانے جیسے کام بھی بلقیس ایدھی انجام دیتی رہی ہیں۔


ملکی اور بین الاقوامی سطح پر خدمات کا اعتراف

سن 2016 میں عبدالستار ایدھی کے انتقال کے بعد بلقیس ایدھی نے اپنے بیٹے فیصل ایدھی کے ہمراہ مرحوم عبدالستار ایدھی کا مشن جاری رکھا اور اسی طرح دکھی انسانیت کی خدمت میں اپنی ذات کو محو رکھا۔ ان کی بےلوث خدمات کے اعتراف میں نہ صرف حکومت پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز کے اعزاز سے نوازا بلکہ انہیں روسی حکومت کی طرف سے لینن پیس پرائز بھی ملا جبکہ بھارتی لڑکی گیتا کی دیکھ بھال کرنے پر بھارت نے انہیں مدر ٹریسا ایوارڈ 2015 سے نواز رکھا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔