بھارت میں شیروں کی تعداد میں اضافہ لیکن کس کی قیمت پر؟

بھارت میں شیروں کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اوراس کامیابی کی ہرطرف تعریف ہو رہی ہے۔ لیکن اپنے قدرتی مسکن جنگلوں سے بے دخل کردیے گئے قبائلی سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ کامیابی کس کی قیمت پر ملی ہے۔

بھارت میں شیروں کی تعداد میں اضافہ لیکن کس کی قیمت پر؟
بھارت میں شیروں کی تعداد میں اضافہ لیکن کس کی قیمت پر؟
user

Dw

'شیر میسور' ٹیپو سلطان کے شہر میسورو میں اتوار کے روز جشن کا ماحول تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی 'جنگل سفاری' کے مخصوص لباس میں وہاں لوگوں کو بتا رہے تھے کہ 50 سال قبل شیروں کو بچانے کے لیے شروع کیے گئے پروگرام کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں اور بھارت میں شیروں کی تعداد 3000 سے تجاوز کرچکی ہے۔

وزیر اعظم مودی نے اس موقع پر "پروجیکٹ ٹائیگر" کے 50 برس مکمل ہونے پر ایک رپورٹ بھی جاری کی۔ سن 1973میں جب یہ پروجیکٹ شروع کیا گیا، اس وقت بھارت میں شیروں کی تعداد 1800 کے قریب تھی اور سن 2006 میں تو یہ گھٹ کر1411رہ گئی۔ لیکن دہائیوں کی کوشش کے بعد ان کی تعداد اب 3167 ہو گئی ہے۔


ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً4500 شیر ہیں اور ان کا 70 فیصد بھارت میں ہے۔ شیروں کی تعداد میں اضافہ نہ صرف بھارتی ماہرین ماحولیات کے لیے باعث مسرت ہے بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی اس سے امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی ہے۔

وزیر اعظم مودی نے اس کا اظہار کرتے ہوئے کہا،"پروجیکٹ ٹائیگر کی کامیابی صرف بھارت کے لیے ہی قابل ذکر نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کی کامیابی ہے۔ بھارت نے نہ صرف شیروں کو بچایا بلکہ اس نے ایک عظیم ایکو سسٹم بھی دیا جو پھل پھول رہا ہے۔ یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ایسے وقت میں جب بھارت نے اپنی آزادی کے 75برس مکمل کیے ہیں دنیا میں شیروں کی مجموعی تعداد کا تقریباً75 فیصد بھارت میں ہے۔ اس کامیابی میں سب کی مدد شامل ہے۔" مودی نے مزید کہا، "بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں فطرت کی دیکھ بھال اور حفاظت ثقافت کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے جنگلی حیات کے تحفظ میں ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔"


لیکن یہ کامیابی کس قیمت پر ملی ہے؟

جس وقت وزیر اعظم مودی دنیا کو یہ خوش خبر سنا رہے تھے، اسی وقت وہاں سے تھوڑی دور پر کچھ لوگ ماحولیاتی تحفظ کے نام پر جنگلوں سے بے دخل کردیے جانے کا دکھ میڈیا کو بتارہے تھے۔ پروجیکٹ ٹائیگر اور اس طرح کے دیگر پروجیکٹوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا ہے۔

شیروں کی تعداد بڑھانے کے لیے قانون کا سہارا لیا گیا۔ اس قانون کے تحت جو پروجیکٹ نافذ کیے گئے ان میں ایسے محفوظ علاقوں کو فروغ دینے کی بات کہی گئی ہے، جن سے لوگوں کی آبادیوں کو دور رکھا جائے۔ قبائلیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی امریکی ماحولیاتی پالیسی کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی تھی جن کے ذریعہ ہزاروں ایسے افراد کو بے گھر کردیا گیا جن کی کئی نسلیں جنگلوں میں رہتی آئی تھیں اور جن کی گزر بسر کا ذریعہ جنگلوں سے حاصل ہونے والے وسائل تھے۔


کئی قبائلی گروپوں نے 'ناگراہول آدیواسی ون ادھیکار سمیتی' نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے۔ کمیٹی چاہتی ہے کہ جنگلوں کے تحفظ کے نام پر چلائے جانے والے پروجیکٹوں میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جائے جنہیں آبائی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔

کمیٹی کے ایک رکن 27 سالہ جے اے شیوو کا کہنا تھا، "پروجیکٹ ٹائیگر کے تحت جن جنگلوں کو محفوظ علاقے قرار دیے گئے ہیں، ناگراہول ان میں سب سے پہلا جنگل تھا۔ ہمارے ماں باپ، دادا، نانا شاید ان ابتدائی لوگوں میں سے تھے جنہیں اس پروجیکٹ کے تحت جنگلوں سے بے دخل کیا گیا۔" شیوو نے کہا کہ ان کے خاندان سے تمام حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ "ہم اپنی زمین، عبادت گاہوں اور جنگلوں سے شہد جمع کرنے جیسے تمام اختیارات سے محروم کردیے گئے ہیں، ایسا کیسے چلے گا؟"


حالانکہ بھارت میں قبائلی امور کی وزارت کا کہنا ہے کہ جنگلوں میں آباد لوگوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن سماجی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ سن 2006 میں منظور کردہ وائلڈ لائف قانون کے تحت ملک کے دس کروڑ قبائلیوں میں سے صرف ایک فیصد کو ہی حقوق دیے گئے ہیں۔

پروجیکٹ ٹائیگر کی کامیابی

وزیر اعظم مودی نے اتوار کے روز شیروں کے دو محفوظ پناہ گاہوں کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران جنگل سفاری والے لباس میں ان کی تصویریں بھی شائع کی گئیں۔ سن 1973میں جب پروجیکٹ ٹائیگر کا آغاز ہوا اس وقت بھارت میں شیروں کے لیے صرف نو محفوظ پناہ گاہیں تھیں۔ ان کی تعداد اب 53 ہو گئی ہے جو 75800 مربع کلومیٹر پر وسیع ہیں۔


حکومت شیروں کی آبادی، ان کی نقل وحرکت اور رویے پر نگاہ رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی مثلاً ڈرونز، کیمرے اور سافٹ ویئر سسٹم کا استعمال کر رہی ہے۔ بھارت نے شیروں کی حفاظت کے لیے کئی ملکوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے ہیں۔

پروجیکٹ ٹائیگر کے سربراہ ایس پی یادو کا کہنا ہے، "پروجیکٹ ٹائیگر کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ اتنے بڑے اور وسیع کسی پروجیکٹ کو شاید ہی کہیں اور اس طرح کی کامیابی حاصل ہوئی ہو۔" دوسری طرف وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی نامی غیر سرکاری تنظیم کی ڈائریکٹر ودیا آتریا کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کی شراکت ہی جنگلی حیات کی حفاظت کی راہ کو مستحکم بنا سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔