رومی سلطنت اور فوج

رومی سلطنت کا زوال ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تاریخ قوموں کو سبق تو دیتی ہے، اگر اس سے سبق سیکھا نہ جائے، تو اس کا انجام تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔

رومی سلطنت اور فوج
رومی سلطنت اور فوج
user

Dw

تاریخ میں جنگوں کا طویل سلسلہ رہا ہے۔ طاقتور قومیں کمزور ممالک پر حملے کر کے ان کی زمینوں پر قبضے کرتی رہی ہیں۔ ان کی جمع شدہ دولت کو مال غنیمت کے طور پر لوٹتی رہی ہیں۔ ان کی خواتین، مردوں اور بچوں کو غلام بنا کر منڈیوں میں فروخت کرتی رہی ہیں۔ فوجی طاقت کی بنیاد پر وسیع و عریض سلطنتیں قائم کرتی رہی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک رومی سلطنت بھی ہے، جو فتوحات کے ذریعے مغرب سے لے کر مشرق تک پھیل گئی تھی۔ اس کی فتوحات میں رومی فوج کا حصہ تھا، جس میں صحت مند نوجوان اپنی جانیں دینے کے لیے بھرتی ہو جاتے تھے۔ وہ جنگ کو ایک مقدس پیشہ سمجھتے تھے، جس میں بہادری اور شجاعت کے ساتھ لڑنا اور عزت کی خاطر جان دینا معاشرے میں مقبولیت کا باعث تھا۔

مشہور برطانوی مصنف برین کیمبل نے جنگ، معاشرہ اور رومی سلطنت نامی کتاب میں رومی فوج اور اس کی فتوحات کے بارے میں تفصیل دی ہے۔ اس نے رومی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ رومی ریپبلیکن کا ہے اور دوسرا بادشاہت کا۔ ریپبلک کے دور میں اقتدار کے لیے جرنیلوں میں خانہ جنگیاں ہوتی تھیں۔ فوجی اپنے جرنیلوں کے وفادار ہوتے تھے اور ان کی خاطر جانیں دیتے تھے۔ جرنیل بھی اپنے فوجیوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ صورتحال میں اس وقت تبدیلی آئی جب جولیس سییزر کا قتل ہوا اور آگسٹس روم کا حکمران بنا۔ اس نے فوج کی نئے سرے سے تنظیم کی اور اپنی حفاظت کے لیے اس نے رومی گارڈز کی بھرتی کی۔ دوسرے فوجیوں کے مقابلے میں ان کو ڈبل تنخواہ دی جاتی تھی۔ رومی فوج کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ رومی شہری ہوں اور صاحب جائیداد بھی ہوں۔ ان کی ملازمت کا دورانیہ پندرہ سال کا ہوتا تھا۔ جب فوجی دور دراز کی مہم پر جاتے تھے تو یہ اپنے خاندان اور کھیتی باڑی سے دور ہو جاتے تھے، جو ان کے لیے ذہنی اذیت کا باعث تھی۔ ان کو سال میں تین تنخواہیں ملتی تھیں اور سال کے آخر میں الاؤنس بھی دیا جاتا تھا۔


فتوحات کے بعد لوٹ مار اور مال غنیمت سے بھی یہ اپنا حصہ وصول کر لیتے تھے۔ ریٹائرمنٹ پر ان کو نقد رقم دی جاتی تھی اور ساتھ ہی کھیتی باڑی کے لیے زمین۔ فوج کا نظم و ضبط بہت سخت تھا۔ اگر کوئی جنگ سے فرار ہونے کی کوشش کرتا تھا، تو اس کی سزا موت تھی۔ فوج میں سزا دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اگر فوجی دستے کا ایک فوجی بھی کوئی غلطی کرتا تھا یا جنگ میں لڑتے ہوئے بہادری کا ثبوت نہیں دیتا تھا، تو اس کے نتیجے میں فوج کے پورے دستے کو سزا دی جاتی تھی۔ فوجیوں کو ایک قطار میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ پہلے فوجی کے بائیں ہاتھ والا فوجی اپنے دائیں ہاتھ والے فوجی کو قتل کر تا تھا۔ یہاں تک کے فوجیوں کی یہ قطار ایک دوسرے کو قتل کر دیتی تھی۔ اس کی وجہ سے فوج نہ صرف بہادری سے لڑتی تھی بلکہ فتح کی صورت میں شکست خوردہ لوگوں کا قتل عام بھی کرتی تھی، عملی طور پر یہ فوج انتہائی پر تشدد تھی۔

فوجیوں کی سخت تربیت کی جاتی تھی۔ ان کا کھانا بے حد سادہ ہوتا تھا۔ خصوصی موقعوں پر انہیں گوشت کھانے کو ملتا تھا۔ ان کے کھانے میں دلیا اور سبزیاں ہوتی تھیں۔ بقول ایک مورخ کے یہ سبزی خور رومی فوج تھی، جس نے آدھی دنیا کو فتح کیا تھا۔ جنگ کے موقع پر فوجیوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے لیے فوجی جرنیل تقریر کیا کرتا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ عام فوجیوں نے جان دے کر فتوحات حاصل کیں مگر تاریخ میں جنرل فاتح کہلائے اور عام فوجی گمنام ہو گئے۔


فوجی رومی سلطنت کے وفادار ہونے کے بجائے اپنے جنرل کے وفادار ہوتے تھے۔ جب فتوحات کے بعد علاقہ وسیع ہوتا گیا تو فوج میں دوسری اقوام کو بھی بھرتی کیا جانے لگا۔ فوجی خدمات کے سلسلے میں انہیں رومی شہریت دے دی جاتی تھی۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رومی فوج طاقت ور ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ جب آگسٹس کی وفات کے بعد کیلی گیولا مسند اقتدار پر بیٹھا، تو اس نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ کیلی گیولا کے بعد کلاڈئیس کو فوج نے شہنشاہ بنا دیا۔ فوج کی منظوری کے بعد سینیٹ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد سے فوج مزید طاقتور ہو گئی اور سینیٹ کمزور۔

رومی حکمراں نیرو کے بعد سیزر کی فیملی کا اقتدار ختم ہوگیا اور اب نئے حکمران فوجی جرنیل ہونے لگے۔ جس کے پاس زیادہ فوجی طاقت ہوتی تھی، وہ اس کی بنیاد پر اقتدار پر قبضہ کر لیتا تھا۔ حالات یہ ہو گئے تھے کہ فوجی حمایت کے بغیر اقتدار کا حصول نا ممکن تھا اور حکمران فوجیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں مراعات دیتا تھا اور تنخواہوں میں اضافہ بھی کرتا تھا۔ یعنی بادشاہت کی نیلامی ہوتی تھی۔ اس بحران کے دوران اصلاحات کی بھی کچھ کوششیں ہوئیں۔ یہ کوششیں ڈائیوکیلیشن کی طرف سے ہوئیں۔ اس نے رومی سلطنت کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا تھا تاکہ انتظامی صورتحال بہتر ہو اور رومی سلطنت کا دفاع ہو سکے۔


رومی جرنیلوں نے اپنی شہرت اور فتوحات کا پروپیگنڈا کرنے کے لیے اپنے مجسمے بنوائے۔ فتح کی محرابیں تعمیر کرائیں اور شہر کے چوک میں ستونوں پر اپنے فوجی کارنامے نقش کرائے۔ مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں ان کے لیے احترام کے جذبات پیدا ہوں اور فوج کو بھی ان کارناموں پر فخر ہو۔ یہ دستور بھی تھا کہ جب فوجی جرنیل فتح کے بعد واپس آتا تھا، تو اس کا جلوس نکالا جاتا تھا اور پبلک جمع ہو کر اس کا استقبال کرتی تھی۔

اس طرح آگے چل کر سلطنت کی وسعت اور بہتر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے فوج کمزور ہوتی چلی گئی اور کئی معرکوں میں اسے شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ خصوصا جرمن قبائل نے ان فوجیوں کو کئی شکستیں دیں۔ اقتدار کے لیے خانہ جنگیاں شروع ہو گئیں اور آہستہ آہستہ صوبے آزاد ہونا شروع ہو گئے اور یہاں تک کہ چارسو دس عیسوی میں بعض قبائل نے روم پر بقضہ کرلیا۔


تاریخ میں قوموں کا عروج و زوال ہوتا رہا ہے۔ عروج کے وقت قومیں اپنی توانائی، ذہانت اور صلاحیتوں کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ لیکن جب امراء اور اشرافیہ میں بغیر محنت کے دولت آجاتی ہے، تو ان کا کردار بھی بدل جاتا ہے۔ رومی سلطنت میں جہاں ایک طرف اس کے فوجیوں نے فتوحات کیں، وہیں دوسری طرف جب فوج میں بدعنوانی آئی اور اس نے نااہل افراد کو حکمران بنانا شروع کر دیا، تو رومی سلطنت کی عظمت اوراس کا وقار ختم ہو گیا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے وجود کو برقرار نہ رکھ سکی۔ تاریخ قوموں کو سبق تو دیتی ہے، اگر اس سبق سے سیکھا نہ جائے، تو اس کا انجام تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */