کیا جمعیت علمائے ہند کی آر ایس ایس سے قربت بڑھ رہی ہے؟

بھارتی مسلمانوں کی معروف تنظیم جمیعت علمائے ہند کے حالیہ بیانات سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ وہ ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس سے قربت بڑھا رہی ہے۔

کیا جمعیت علمائے ہند کی آر ایس ایس سے قربت بڑھ رہی ہے؟
کیا جمعیت علمائے ہند کی آر ایس ایس سے قربت بڑھ رہی ہے؟
user

Dw

ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)نیز وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی اس کی معاون تنظیموں پر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حالیہ برسوں میں تشویش ناک ماحول تیار کرنے اور قافیہ تنگ کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔

دوسری طرف حالیہ مہینوں میں مسلمانوں کے بعض رہنماوں اور تنظیموں بالخصوص جمعیت علمائے ہند نے آر ایس ایس کے رہنما موہن بھاگوت سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ اس پیش رفت نے بھارتی بالخصوص مسلمانوں کے ذہنوں میں کئی طرح کے خدشات جنم دیے ہیں۔


ان خدشات کو مزید تقویت اتوار کے روز جمعیت علماء ہند کے 34ویں عام اجلاس میں منظور کردہ قراردادوں سے ملی۔ ان میں سے ایک میں کہا گیا ہے،"ہم یہاں یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت ہرگز نہیں ہے بلکہ ہمارا اختلاف نظریے پر مبنی ہے۔"

قرارداد میں مزید کہا گیا ہے،"آرایس ایس کے سر سنگھ چالک (موہن بھاگوت)کے حالیہ ایسے بیانات کا جن سے باہمی میل جول اور قومی یک جہتی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، ہم استقبال کرتے ہیں۔"


قرارداد کے مطابق"جو نام نہاد تنظیمیں اسلام کے نام پر جہاد کے حوالے سے انتہا پسند ی اور تشدد کا پرچار کرتی ہیں وہ نہ ملک کے مفاد کے اعتبار سے اور نہ ہی مذہب اسلام کی رو سے ہمارے تعاون اور حمایت کی حق دار ہیں۔اس کے برخلاف وطن کے لیے جاں نثاری، وفاداری اور حب الوطنی ہمارا ملکی و دینی فریضہ ہے، ہمارا دین اور ہمارا ملک سب سے پہلے ہے۔"

جمعیت علماء ہند کے ان خیالات کو اس الزام کی تائید سمجھا جارہا ہے جو بی جے پی نیز ہندو شدت پسند تنظیمیں اکثرمسلمانوں پر عائد کرتی رہتی ہیں۔


'یہ تاثر درست نہیں ہے'

جمعیت علماء ہند کا تاہم کہنا ہے کہ یہ درست نہیں کہ وہ آر ایس ایس سے قربت بڑھا رہی ہے۔ جمعیت علماء ہند کے سیکریٹری نیاز احمد فاروقی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"ہم آر ایس ایس اور بی جے پی کے قریب نہیں ہیں بلکہ اس ملک میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان جو بہت بڑا گیپ ہے ہم اس کو کم کرنا چاہتے ہیں ہم ایک پل بنانا چاہتے ہیں۔"

فاروقی کا کہنا تھاکہ آرایس ایس کا بھارت کے ایک بہت بڑے طبقے سے تعلق ہے اور ہم کسی کا بائیکاٹ نہیں کرتے۔ "ہمارا نظریہ ہے کہ سب کے ساتھ بات چیت ہونی چاہئے۔ سب کے ساتھ تعلقات ہونے چاہئیں تبھی ملک کا ماحول بدلے گا۔" نیاز احمد فاروقی کے مطابق"ایسا نہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں اس کا فوراً نتیجہ نکل آئے گا۔ ہم تو صرف اپنا فرض ادا کر رہے ہیں، خواہ نتیجہ نکلے یا نہ نکلے۔"


"وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا"

بعض سیاسی مبصرین گوکہ بات چیت کے حق میں ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ماضی اور حال کے واقعات کی بنیاد پر یہ واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی وشو ہندو پریشد جیسی شدت پسند تنظیموں پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔

بھارتی صحافی اور روزنامہ''انقلاب" کے مدیرعبدالودود ساجد کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے سامنے قرآن اور پیغمبر اسلام کی سیرت میں اس حوالے سے رہنمائی موجود ہے لہذا شدت پسند ہندو تنظیموں کے رہنماوں سے ملاقات میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم عبدالودود ساجد کے مطابق شدت پسند ہندو رہنماوں کے ماضی اور حال کو دیکھ کر ان پر ایک فیصد بھی یقین نہیں کیا جاسکتا ہے۔


عبدالودود ساجد کا کہنا تھا کہ وشوہندو پریشد تو مسلمانوں کے خلاف جھوٹ کی بنیاد پر نفرت بلکہ تشدد کا مترادف بن چکا ہے۔ لیکن ان کی جتنے بھی مسلم رہنماوں سے اب تک بات ہوئی ہے ان میں سے ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ ان متشدد جماعتوں سے گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں، سب یہی کہتے ہیں کہ ان سے ملنا جلنا چاہئے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں وی ایچ پی کے صدر آلوک کمار سے بات چیت کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ انہیں کافر اور جہاد جیسے متنازع امور کی حقیقت معلوم ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ متنازع امور پر انہیں قائل کرنے کی کوشش نہ کی جائے "بلکہ مسلم رہنما چائے پی کر رخصت ہو جائیں۔"


'ملنا ہے تو وزیر اعظم سے ملیئے'

مسلم رہنماوں کے آر ایس ایس جیسی تنظیموں سے ملاقات کے حوالے سے بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہ رہنما مسلمانوں کے مسائل کو حل کرانے میں واقعی مخلص ہیں تو انہیں شدت پسند ہندو تنظیموں کے بجائے براہ راست وزیر اعظم یا حکومت میں اعلٰی ترین سطح پر بات چیت کرنی چاہئے۔

بھارتی صحافی اور 'روزنامہ جدید خبر'کے ایڈیٹر معصوم مرادآبادی کا کہنا تھا کہ بھارت میں ایک جمہوری نظام ہے اور آئین نے ہر شہری کو حقوق دیے ہیں لہذا اگر بات کرنی ہے تو حکومت سے کیوں نہ کی جائے؟ "ہم ایسی تنظیموں سے کس بنیاد پر بات کرسکتے ہیں جن کا آئین کے حوالے سے نظریہ ہی قابل اعتراض ہے اور جن کے ایجنڈے کا سب کو علم ہے۔ " انہوں نے مزید کہا،"آپ کو بجلی دفتر میں کام ہے تو آپ وہیں جائیں گے نا کسی اخبار کے دفتر میں تو نہیں جائیں گے نا؟"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔