کتوں سے بدسلوکی اور چڑیاں آزاد کروانے کا کاروبار

چڑیاں آزاد کروانے کا کاروبار بڑھ رہا ہے اور کئی جانوروں کو جادو ٹونے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں آوارہ کتوں کی تعداد تقریباً پچیس لاکھ ہے اور ان سے بدسلوکی کو ’مذہب سے جوڑ‘ دیا جاتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

پاکستان میں پالتو جانوروں کے مالکان تو ان سے محبت کی وجہ سے ان کی مناسب دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لاوارث اور آوارہ کہلانے والے ایسے جانور، جن میں کتے، بلیاں اور گدھے بھی شامل ہوتے ہیں، انہیں موسموں کی سختیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ظلم بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ایسے لاوارث جانوروں پر ظلم کرنے والے انسان ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے یا پھر ان سے نفرت کی بنیاد پر انہیں پتھر مارتے حتیٰ کہ ان کے کان وغیرہ تک کاٹ دیتے ہیں۔

پاکستان میں سرکاری وسائل سے چلنے والے کچھ ایسے ادارے بھی ہیں جن کا کام جانوروں پر ظلم اور ان سے بدسلوکی کی روک تھام ہے۔ ساتھ ہی کئی بلدیاتی اداروں کی سطح پر ایسے شعبے بھی ہیں، جو مخصوص حالات میں ایسے آوارہ جانوروں کی تلفی خاص طور پر ’’کتے مار‘‘ مہمیں شروع کر دیتے ہیں۔


پاکستان کے مختلف شہروں میں کئی ایسی غیر حکومتی تنظیمیں اور ادارے بھی ہیں جو نجی عطیات کی رقوم سے زخمی اور لاوارث جانوروں کو ریسکیو کرنے اور انہیں شیلٹر مہیا کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، اس کے جڑواں شہر راولپنڈی اور قریبی علاقوں میں گزشتہ کئی برسوں سے زخمی اور لاوارث جانوروں کو ریسکیو کر کے ان کا علاج اور دیکھ بھال کرنے والی ایک تنظیم کرِٹرز آرک ویلفیئر آرگنائزیشن(CAWO) بھی ہے۔ Critters Ark کی سربراہ انیلا عمیر ہیں، جو اس حوالے سے گزشتہ اٹھارہ برسوں سے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔


انیلا عمیر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تنظیم زخمی جانوروں اور پرندوں کو ریسکیو کر کے ان کا علاج کرتی اور انہیں شیلٹر تو مہیا کرتی ہی ہے لیکن ساتھ ہی وہ جانوروں کی غیر قانونی خرید و فروخت کے خلاف بھی کوشاں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر واقعات میں ایسے جانور آتے ہیں، جو کسی گاڑی وغیرہ سے ٹکرا کر زخمی ہوئے ہوتے ہیں۔

کرِٹرز آرک کے اسلام آباد میں واقع شیلٹر ہاؤس میں اس وقت سو سے زائد جانور موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن کو ریسکیو کیا گیا تھا۔ ریسکیو کیے گئے جانوروں کو ان کے علاج معالجے کے بعد یا تو جانوروں سے محبت کرنے والے مختلف گھرانے اپنا لیتے ہیں یا پھر انہیں اسی تنظیم کے شیلٹر ہاؤس میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کی دیکھ بھال ہوتی رہتی ہے۔


جانوروں سے بدسلوکی کیوں؟

انیلا عمیر نے پاکستانی معاشرے میں جانوروں سے بدسلوکی کے رجحان اور اس سلسلے میں عام والدین کے رویوں پرکڑی تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ جب وہ خود جانوروں کو پتھر ماریں گے، تو بچے بھی یہی سیکھیں گے۔ ایسی آگہی مہمیں اسکولوں میں چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ جب والدین اور اساتذہ خود بھی جانوروں سے پیار کریں گے اور بچوں کو بھی یہی سکھائیں گے تو بچے بھی جانوروں سے نفرت کی بجائے محبت کرنا سیکھیں گے۔ اس کے علاوہ جانوروں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کم از کم ایک لازمی کورس بھی تعلیمی نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔‘‘

کرِٹرز آرک کی سربراہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں مزید کہا، ''ہمارے معاشرے میں زیادہ تر کتوں سے نفرت کی جاتی ہے اور بلیوں کو بھی ناپسند کیا جاتا ہے۔ ان عوامی رویوں کو اکثر مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے، جو بے جا اور غلط ہے۔ اس طرح عام سادہ لوح شہریوں کے رویے بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں‘‘۔


مساجد اور مزاروں کے باہر جانوروں پر ظلم

انیلا عمیر نے جانوروں پر ظلم کی دو مثالیں دیتے ہوئے کہا، ’’اکثر مسجدوں اور مزاروں کے باہر کئی لوگ پنجروں میں بند چڑیاں لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بطور صدقہ اور حصول ثواب کے لیے یہ چڑیاں خرید کر آزاد کرا دیں حالانکہ یہ بھی سادہ لوح افراد سے رقم ہتھیانے کا ایک مجرمانہ کاروبار ہے۔ اس لیے کہ ان پرندوں کو پکڑ کر اور پھر پنجروں میں بند کر کے لانا اور پھر بیچنا یوں بھی غیر قانونی ہے۔ ذرا سوچیں کہ جو پرندے اپنے گھونسلے سے بچوں کے لیے دانا وغیرہ لانے نکلیں، انہیں پکڑ کر پنجروں میں بند کر دیا جائے اور گھونسلوں میں ان کے بھوکے بچے اپنے والدین کی واپسی کے منتظر ہی رہیں۔ یہ تو صدقے اور ثواب کی بجائے انتہا کا ظلم ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''اسی طرح کھیل تماشوں کے لیے استعمال ہونے والے بندروں پر بھی بہت ظلم کیا جاتا ہے۔ انہیں مار مار کر اور بھوکا رکھ کر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مداری کی بات مانیں اور اس کے حکم پر تماشا کریں۔ ہمیں جب بھی کوئی ایسا جانور نظر آتا ہے، تو ہم فوراً پولیس کو رپورٹ کروا کے اسے ریسکیو کر لیتے ہیں۔ جب تک معاشرے میں قانون کی پاسداری عمل میں نہیں آتی جانوروں کی پامالی جاری رہے گی‘‘۔


جانوروں پر ظلم بڑھ رہا ہے

اسلام آباد میں بنی گالا کے رہائشی محمد علی خان گزشتہ دس سال سے جانوروں کو ریسکیو کرنے کے ساتھ ساتھ پالتو جانوروں کی خرید و فروخت سے بھی منسلک ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ معاشرے میں جیسے انسانی حقوق کی پامالی بڑھی ہے، اسی طرح حقوق حیوانات کی خلاف ورزیاں اور جانوروں پر ظلم و تشدد بھی بڑھے ہیں۔

محمد علی کے مطابق پاکستان میں جانوروں کے حقوق کی پامالی کا حال یہ ہے کہ گزشتہ برس ایک ریچھ کو گولی مار دی گئی اور اس کے بچے کے کان کاٹ دیے گئے۔ انہوں نے کہا، ’’لیکن کچھ ہی دیر بعد جب ریچھ کے اس بچے کو بیچنےکا سوچا گیا تو کان کٹے ہونے کی وجہ سے قیمت کم ملنے کے خدشے کے باعث ریچھ کے اس بچے کے کان ایلفی سے دوبارہ جوڑ دیے گئے تھے‘‘۔


پرندوں کا جادو ٹونے میں استعمال

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اکثر لوگ ان سے الو خریدنے کے لیے بھی رابطہ کرتے ہیں مگر وہ انکار کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی الو ہے ہی نہیں۔ علی خان کے بقول ایسے افراد باقاعدہ اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں الو اس لیے چاہیے کہ وہ اس پرندے کے پاوں کاٹ کر انہیں جادو ٹونے کے لیے استعمال کر سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ بھی جن کتوں کو ریسکیو کرتے ہیں، وہ یا تو کسی گاڑی وغیرہ کی ٹکر سے زخمی ہوئے ہوتے ہیں یا پھر انہیں عام شہریوں نے پتھر مار مار کر شدید زخمی کر دیا ہوتا ہے۔ علی خان نے بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں جانوروں کے حقوق سے متعلق عوامی شعور میں اضافے اور حیوانات پر ظلم و تشدد کے خاتمے کے لیے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کا طریقہ کار بدلنا ہو گا، ’’ہر انسان کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جانور بول نہیں سکتے لیکن ان کو بھی درد اور تکلیف محسوس ہوتے ہیں، جیسے ہم سب انسانوں کو۔‘‘


نیشنل انسٹیٹیوت آف ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں آوارہ کتوں کی تعداد تقریباً پچیس لاکھ ہے۔ ان میں سے ہر سال مختلف سرکاری مہموں کے دوران تقریباً پچاس ہزار کتے ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔ اس دوران یہ دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی کہ آیا کوئی کتا واقعی خطرناک بھی ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔