'2021 وعدہ خلافی اور ناامیدی کا سال تھا' ایمنسٹی انٹرنیشنل

حقوق انسانی کی عالمی تنظیم نے گزشتہ برس کے شہری اور انسانی حقوق پر نظر ڈالی تو پایا کہ یہ امیدوں کے ٹوٹنے کا سال تھا۔ ایمنسٹی کے مطابق ڈیجیٹل دنیا بڑی تیزی سے سرگرمیوں اور جبر کا مقام بنتی جا رہی ہے۔

'2021 وعدہ خلافی اور ناامیدی کا سال تھا' ایمنسٹی انٹرنیشنل
'2021 وعدہ خلافی اور ناامیدی کا سال تھا' ایمنسٹی انٹرنیشنل
user

Dw

حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل دنیا بھر میں ہونے والی پیشرفتوں پر غور و فکر کے بعد انسانی اور شہری حقوق کے حوالے سے اہم ترین عالمی رجحانات کا تجزیہ ترتیب دیتی ہے۔ اسی سلسلے میں تنظیم نے 29 مارچ منگل کے روز اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ایمنسٹی کے محقق اور ایڈو کیسی کے ڈائریکٹر فلپ لوتھر کہتے ہیں: "2021 واقعی وعدوں کے اعتبار سے بہت ہی اہم سال تھا۔" تاہم ۔۔۔۔۔ "حقیقت اس کے بالکل بر عکس تھی۔"


لوتھر نے ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں کہا کہ امید تو یہ تھی کہ دنیا وبائی مرض سے یکساں طور پر ابھرے گی، تاہم امیر ممالک نے، خاص طور پر ویکسین کی وسیع پیمانے پر تیاری اور تقسیم کو روک دیا۔

اس سالانہ رپورٹ میں حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گيا ہے کہ 2021 کے اواخر میں افریقہ میں تقریبا ایک سو ارب لوگوں میں سے آٹھ فیصد سے بھی کم کو مکمل ویکسین دی گئی۔ عالمی سطح پر ویکسین کی یہ سب سے کم شرح ہے اور ڈبلیو ایچ او کے 40 فیصد ویکسین کے ہدف سے بہت دور ہے۔


ایمنسٹی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی حکومتوں نے اس وبا کو اپوزیشن اور سول سوسائٹی کو دبانے کے لیے بھی استعمال کیا۔ لوتھر کہتے ہیں، "یہ صورت حال دنیا کے تمام خطوں میں یکساں ہے اور یہی سبب ہے کہ ہم نے اپنے عالمی تجزیے میں اس کو اہم طور پر اجاگر کیا ہے۔" ایمنسٹی اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق کورونا وبا کا اثر سول سوسائٹی پر بھی پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "کچھ حکومتوں نے آزادی اظہار کو محدود کرنے کے لیے خاص طور پر وبائی مرض کو استعمال کیا۔" ان ممالک کی مثالیں جہاں مظاہرے روکے گئے اور جہاں انسانی حقوق کے محافظ خطرے میں ہیں، ان میں کمبوڈیا، روس، چین جیسے کئی دیگر ممالک شامل ہیں۔


مسیحیوں سے منسلک ایک امدادی تنظیم، 'بریڈ فار دی ورلڈ' میں انسانی حقوق اور امن کے شعبے کی سربراہ سلک فائیفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "دنیا کے مختلف خطوں میں سول سوسائٹی کے کام کاج کو مشکل بنانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "خاص طور پر انفرادی کارکنوں کے خلاف امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں، ظلم و ستم کیا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں انہیں قتل تک کر دیا جاتا ہے۔"


ان کے مطابق بہت سے ممالک میں تو، "حکومتیں ایک مخالف ماحول پیدا کرتی ہیں اور پھر اسی کے تحت غیر سرکاری تنظیموں کو بند تک کر دیا جاتا ہے۔ ہم ایسا ہوتے بار بار دیکھتے ہیں۔"

ایک 'دو دھاری تلوار'

حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں اب تیزی سے اپنا کام آن لائن کر رہی ہیں۔ لوتھر اس ترقی کو "دو دھاری تلوار" قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول "حکام خفیہ طور پر ٹیکنالوجی کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ جس سے لوگوں کے انسانی حقوق پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں"


ان کا مزید کہنا تھا کہ دیکھا یہ گيا ہے کہ "بہت سے معاملات میں حکومتیں بھی اس وقت ان ٹولز کو بند کرنے اور ان میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں، سول سوسائٹی جن کا استعمال ایک دوسرے کے ساتھ بہتر طور پر رابطہ کرنے اور معلومات پھیلانے کے لیے کرتی ہیں۔"

ماسکو میں ہونے والے مظاہروں کے دوران چہرے کی شناخت والی ٹیکنالوجی کا استعمال اور صحافیوں، اپوزیشن شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس کا استعمال بھی اس کی واضح مثالیں ہیں۔


فائفر کے مطابق انٹرنیٹ سول سوسائٹی کے لیے منظم اور متحرک ہونے کا ایک اہم طریقہ کار ہے تاہم دنیا بھر میں، "حکومتوں نے جہاں خود کو ڈیجیٹل طور پر کافی اپ گریڈ کر لیا ہے وہیں وہ اب اٹرنیٹ کی آزادی کے خلاف ہی بہت سخت کارروائیاں بھی کر رہی ہیں۔"

ان کے بقول حکومتیں اس کے لیے کبھی سنسرشپ کا راستہ اپناتی ہیں، تو کبھی انٹرنیٹ سروسز کو بند کر دیتی ہیں اور بڑے پیمانے پر اس کی نگرانی بھی کرتی ہیں۔


ایمنسٹی نے نوٹ کیا ہے کہ گزشتہ برس روس، بھارت، کولمبیا، سوڈان، لبنان اور دنیا کے دیگر کم از کم 75 ممالک کے لوگ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے سڑکوں پر بھی نکلے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔