اقبال کو باہر کرنے اور ساورکر کو داخل کرنے سے ہم ملک کو کس جانب لے جا رہے ہیں؟

دانشوروں نے دہلی یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ کورس کے نصاب سے علامہ اقبال کے موضوع کو حذف کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بدنیتی اور تنگ نظری قرار دیا۔

دہلی یونیورسٹی کے نصاب سے علامہ اقبال باہر، ساورکر داخل
دہلی یونیورسٹی کے نصاب سے علامہ اقبال باہر، ساورکر داخل
user

Dw

بھارت کی معروف دانش گاہ دہلی یونیورسٹی کے بی اے (سیاسیات) کے کورس سے شاعر مشرق کہلائے جانے والے ڈاکٹر محمد اقبال کے باب کو حذف کر دینے کے یونیورسٹی اکیڈمک کونسل کے فیصلے کی علمی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ہندوتوا کے علمبردار وی ڈی ساورکر کو پہلی مرتبہ یونیورسٹی نے نصاب میں شامل کر لیا ہے۔

اقبال کے متعلق یہ حوالہ 'جدید ہندوستانی سیاسی نظریات' کے باب میں پڑھایا جاتا تھا۔ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوگیش سنگھ کے مطابق ’’انڈیا کو تقسیم کرنے کی بنیاد رکھنے والوں کو نصاب میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔‘‘


'یہ بھارتی قوم کی بدنصیبی ہے'

ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے دہلی یونیورسٹی کے فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ برصغیر کے معروف ماہر اقبالیات اور دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس عبدالحق نے اقبال کو نصاب سے حذف کرنے کے فیصلے کو افسوس ناک، بدنیتی اور تنگ نظر پر مبنی اور تعلیمی ادارے کے لیے بدنصیبی قرار دیا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایسا سیاسی نقطہ نظر کی وجہ سے کیا جا رہا ہے، جس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔" انہوں نے مزید کہا کہ اقبال جیسا محب وطن شاعر ہندوستان تو کیا پوری دنیا کے کسی ادب میں پیدا نہیں ہوا، ''لیکن بدقسمی سے کچھ لوگوں کو وہ پھوٹی آنکھ پسند نہیں آرہا ہے کیونکہ اس کا تعلق جس تہذیب سے ہے، انہیں وہ پسند نہیں۔"


انہوں نے کہا کہ یہ اس قوم کی بدنصیبی ہے، جو نئی نسل کو محدود دائرے میں رکھنا چاہتی ہے، '' یہ نوجوان نسل کو تاریکی کی طرف لے جا رہی ہے۔ لیکن اس سے اقبال کو تو کوئی نقصان نہیں ہوگا البتہ ایک پوری قوم خسارے میں چلی جائے گی۔"

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ حالانکہ اکیڈمک کونسل کے کم از کم پانچ اراکین نے اقبال کو نصاب سے نکالنے پر اپنا اعتراض درج کرایا ہے۔ اس دوران اکیڈمک کونسل نے اپنے ایک اور فیصلے میں ایک ہندو ریاست کے قیام کے علمبردار ونائک دامودر ساورکر کو نصاب میں پہلی مرتبہ شامل کر لیا ہے۔


اقبال پر دو قومی نظریہ ساز کا الزام غلط

دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوگیش سنگھ نے اقبال کو نصاب سے نکال دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے انڈیا کو تقسیم کرنے کی بنیاد رکھی انہیں نصاب میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔ یوگیش سنگھ کا دعویٰ ہے کہ اقبال نے ہی پہلی مرتبہ تقسیم ملک اور پاکستان کے قیام کا نظریہ پیش کیا تھا، ''لہذا ایسے شخص کے بارے میں پڑھانے کے بجائے ہمیں اپنے قومی ہیروز کے بارے میں طلبہ اور نئی نسل کو بتانا چاہیے۔"

اقبال پر درجنوں کتابوں کے مصنف پروفیسر عبدالحق کا کہنا تھا کہ بھارت کے قومی ترانے کے خالق رابندر ناتھ ٹیگور اقبال سے ملنے کے لیے خود تین مرتبہ لاہور گئے۔ جواہر لال نہرو بھی ان سے ملنے گئے اور گھنٹوں باتیں کیں۔ رادھا کرشنن اور مہاتما گاندھی جیسے لوگوں نے کبھی بھی اقبال کے خیالات پر انگلی نہیں اٹھائی، ''اس لیے اس طرح کی الزام تراشی صرف اور صرف بدنیتی ہے۔‘‘ دہلی یونیورسٹی میں جدید ہندوستانی تاریخ پڑھانے والے ڈاکٹر ابھئے کمار بھی اقبال پر دو قومی نظریہ کا بانی کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔


انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سن 1920 کے آس پاس ساورکر جو مضامین لکھ رہے تھے اگر آپ ان کو دیکھیں گے توپائیں گے کہ ساورکر ہندو دھرم کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی باتیں کررہے تھے، ''وہ ایک ایسے بھارت کی وکالت کرتے ہیں جس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے لیے بطور شہری کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

'یہ کوشش کامیاب نہیں ہو گی'

ابھئے کمار نے اقبال کے موضوع کو نصاب سے حذف کرنے کی کوشش کو انتہائی "شرمناک" قرار دیا اور کہا کہ بھارت کے ہر شہری کو اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا، "اقبال کو آج بھارت سے زیادہ مغرب کے لوگ پڑھ رہے ہیں لیکن اقبال جس سرزمین پر پیدا ہوئے وہیں ان کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ایسا کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔"


دریں اثنا دہلی یونیورسٹی نے مہاتما گاندھی کو بھی بی اے سیاسیات کے کورس میں پانچویں سمسٹر سے ہٹا کر ساتویں سمسٹر میں کر دیا گیا ہے۔ پانچویں سمسٹر میں اب ساورکر کو رکھا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق اگر کوئی طالب علم تین سال پڑھنے کے بعد یونیورسٹی چھوڑنا چاہے گا تو وہ گاندھی کو پڑھ ہی نہیں پائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔