بھارت اور پاکستان کی خواتین کے لیے بریسٹ کینسر کی پیشگی تشخیص میں اے آئی مددگار

مصنوعی ذہانت سے چھاتی کے کینسر کے خطرے کی جلد تشخیص اور پیش گوئی بھارت اور پاکستان میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

ہر سال 20 لاکھ سے زائد خواتین پر چھاتی کے سرطان کا حملہ ہوتا ہے۔ اے آئی یا مصنوعی ذہانت کے ساتھ ابتدائی تشخیص اور خطرے کی پیشین گوئی بھارت اورپاکستان کی مدد کر رہی ہے۔

بریسٹ کینسر: سارہ ( فرضی نام) کبھی سوچا بھی نہ تھا اور نہ ہی وہ یہ الفاظ سننا گوارہ کر سکتی تھی تاہم 31 سال کی عمر میں جب وہ نئی نئی شادی کے بعد ماں بننے کے خواب دیکھ رہی تھی اُس وقت اُسے پتا چلا کہ وہ بریسٹ کینسر کے عارضے میں مبتلا ہے۔


سارہ کے لیے یہ انتہائی مشکل مرحلہ تھا کیونکہ بریسٹ کینسر کا عموماً علاج چھ سالوں پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک سال کیموتھراپی کے اور پانچ سال ہورمونل یا اینڈوکرائن تھراپی کے۔ یہ ہورمونل تھراپی حمل کے عمل میں نا صرف رکاوٹ کا سبب بنتی ہے بلکہ اکثر خواتین اس تھراپی کے سائیڈ ایفکٹس یا ضمنی اثرات کی وجہ سے حمل یا تولیدی صلاحیت کھو بیٹھتی ہیں۔ ماں بننے کی اپنی خواہش پورا کرنے کے لیے سارہ کے پاس ایک رستہ یہ تھا کہ وہ اپنے بیضہ کو منجمد کروا دیتی اور پھر چھ سال کی تھراپی کے بعد جب وہ 37 برس کی ہو جاتی تب ''ان وٹرو فرٹیلائزیشن آئی وی ایف ‘‘ یا مصنوعی طور پر حمل ٹھہرانے کی کوشش کرتی۔ مگر خوش قسمتی سے ڈاکٹروں نے سارہ کا کینسر ٹیسٹ آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا اے آئی کی مدد سے کیا۔ اُس وقت جب انہیں سارہ کے اندر 'ہارمون ریسیپٹر کی حساسیت سے ابتدائی مرحلے کے کینسر‘ کے اشارے مل رہے تھے۔ اسی مرحلے پر ڈاکٹروں نے اُس کا مصنوعی ذہانت (AI) کی مدد سے ایک ٹیسٹ کیا۔ اس ٹیسٹ سے سارہ کے اندر بریسٹ کینسر کی تشخیص تو ہوئی مگر ساتھ ہی یہ بھی پتا چل گیا کہ اُس کے بریسٹ کا ٹیومر ''جارحانہ قسم‘‘ کا نہیں ہے اور اس طرح آئندہ پانچ سالوں میں اس کی چھاتی کے کینسر کے دوبارہ ہونے کا خطرہ کم ہو جائے گا۔

مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال

بھارت میں OncoStem Diagnostics کے ذریعہ بنائے گئے AI پر مبنی پروگنوسٹک ٹیسٹ کی مدد سے کیموتھراپی سے بچنے والے ڈھائی ہزار مریضوں میں سارہ بھی شامل ہے۔ سارہ آج ایک پانچ سالہ بچے کی خوشحال ماں ہے اور اب وہ اپنی ہارمونل تھراپی کروا رہی ہے۔ OncoStem Diagnostics جنوبی ایشیا میں AI ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرنے والی چند کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ نومبر 2022ء میں Open AI کے ChatGPT کے آغاز کے بعد سے مصنوعی ذہانت نے عوامی بیداری میں تیزی دیکھی، لیکن AI صحت کے شعبے میں کی جانے والی تحقیق میں کچھ عرصے سے موجود ہے اور اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ طبی امیجز کا تجزیہ کرنے کے لیے مشین لرننگ کا استعمال 1980ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ ان دنوں، محققین کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کی ایک خاص سطح موجود ہے جو ان مشینوں کو 40 سال پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ترقی یافتہ بنا رہی ہے۔ لہذا، وہ ایسی چیزیں دیکھ رہے ہیں جو انسان بطور ڈاکٹر ضروری طور پر نہیں دیکھتے، یا نہیں دیکھ سکتے۔


بریسٹ کینسر یا چھاتی کے سرطان کی اسکریننگ کے لیے اب تک ڈاکٹرز میموگرام ٹیسٹ کیا کرتے تھے جو چھاتی کے ایکس رے امیجز ہوتے ہیں۔ تاہم نت نئے تجربے بتاتے ہیں کہ میموگرافی کی تشخیص ہمیشہ سو فیصد درست نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ خواتین کی چھاتی کے اندر کی کثافت سمیت دیگر عوامل سے متاثر ہوتی ہے۔ چھاتی کی کثافت کا تعین فیٹی ٹشو کی مقدار کے مقابلے میں عورت کے سینوں میں ریشے دار اور غدود کے ٹشو کی مقدار سے ہوتا ہے۔

سینوں میں پائی جانے والی کثافت گھنی ہونے اور امیجنگ یا اسکریننگ کرنے والی تکنیک کمزور یا ناقص ہو تو میموگرام میں ٹیومر کا پتا لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور یہ خاص طور پر اہم ہے جیسا کہ 'یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن‘ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ اگر آپ کی چھاتی گھنی ہے، تو آپ کو چھاتی کاکینسر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔


ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 10 تا 30 فیصد تک چھاتی کے کینسر کی تشخیص میموگرافی سے نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں چھاتی کے کینسر کا پتا لگانے والے اسٹارٹ اپ RŌZ کی بانی، مہر النساء کیچلو، ایک AI محقق اورمائیکروسافٹ ایپک چیلنج 2022ء جیتنے والی رسرچر ہیں ، ان کا کہنا ہے،'' AI کا استعمال کینسر کا جلد پتہ لگانے اور اس سے بچاؤ میں سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔‘‘

'انسانی مداخلت اب بھی ضروری‘

مہر النساء کیچلو کا کہنا ہے کہ بشمول روبوٹک سرجری AI کے امکانات لامتناہی ہیں۔ تاہم OncoStem Diagnostics کی سی ای او اور بانی، منجیری بیکر کا کہنا ہے کہ انسانی ڈاکٹر ابھی تک غیرضروری نہیں ہوئے ہیں۔ بیکر نے کہا، ''اب بھی انسانی مداخلت کی ضرورت ہے کیونکہ AI کے استعمال میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ سارہ اے آئی کی بدولت کینسر کے بعد بھی اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنے کے قابل رہی تاہم دوسری خواتین شاید اتنی خوش قسمت نہ ہوں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان کا چھاتی کا کینسر زیادہ جارحانہ نوعیت کا ہو اور اس قسم کے کینسر کے لیے AI ماڈل تیار ہونا ابھی باقی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔