افغانستان میں بدلتے رویے، بچیوں کی تعلیم پر سجھوتہ نہیں

مینا احمد سیمنٹ کی مکسچر سے اپنے تباہ شدہ گھر کی دیواریں تعمیر کر رہی ہے۔ افغان گاؤں سالار کی یہ خاتون اس جنگ زدہ ملک میں امن کی خواہاں ہے۔

افغانستان میں بدلتے رویے، بچیوں کی تعلیم پر سجھوتہ نہیں
افغانستان میں بدلتے رویے، بچیوں کی تعلیم پر سجھوتہ نہیں
user

Dw

مینا احمد کا گھر بھی لڑائی میں متاثر ہوا تھا۔ وہ ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتی ہے اور اسی لگن میں اپنے گھر کی تعمیر نو میں مصروف ہے۔ اب طالبان کی عمل داری کے بعد امن کی وجہ سے وہ کچھ مطمئن بھی ہوئی ہے۔

جب طالبان نے افغانستان کا انتظام سنبھالا تھا تو وہ فکر مند ہو گئی تھی تاہم پینتالیس سالہ مینا کو تو امن چاہیے، وہ جیسے بھی آئے۔ وہ دو دہائیوں سے جاری شورش کی وجہ سے مایوس ہو گئی تھی لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ اسے ایک نئی امید نے سرشار کر دیا ہے۔


میناوکا معلوم ہے کہ طالبان کے افغانستان میں خواتین کا معاشرتی کردار محدود ہو جائے گا تاہم اس کا کہنا ہے کہ امن ہو تو وہ ان پابندیوں کے ساتھ بھی بہترین زندگی گزار سکتی ہے۔ ایک بات پر مینا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی اور وہ ہے بچیوں کی تعلیم۔ اس کی تین بیٹیاں ہیں۔ ان کی عمریں تیرہ، بارہ اور چھ برس ہیں۔ مینا کا کہنا ہے کہ وہ انہیں اسکول ضرور بھیجے گی۔

افغان صوبہ وردک بھی طالبان کی پرتشدد کارروائیوں سے متاثر ہوا تھا اور یہاں واقع مینا کا گاؤں سالار بھی میدان جنگ بنا تھا۔ سالار گزشتہ دو برسوں سے طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ اس جنگجو گروہ کی بنیادی لڑائی غیر ملکی فوجیوں اور افغان حکومت سے تھی۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور تشدد کی کارروائیاں تھم گئی ہیں۔


اس جنگ سے مہاجرت اختیار کرنے والے سالار کے رہائشی بھی واپس لوٹ رہے ہیں۔ انہیں بس ایک فکر لاحق ہے کہ ملک کی معیشت کا کیا ہو گا۔ صوبہ وردک ماضی میں قحط کا شکار رہا ہے جبکہ اس مرتبہ بھی اندیشہ ہے کہ یہاں خشک سالی تباہ کن ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف کابل اور دیگر شہروں میں افغان عوام طالبان سے خوش نہیں۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان کے اقتدار میں ان کی شخصی آزادی اور بالخصوص خواتین کے حقوق غصب کر لیے جائیں گے۔ لیکن سالار اور اس جیسے دیگر دیہی علاقوں میں لوگوں کو یہ پروا نہیں کیونکہ وہ تو روٹی ، کپڑا، مکان اور امن چاہتے ہیں۔


یہ امر بھی اہم ہے کہ افغانستان کے دیہی علاقوں میں طالبان کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کے خیالات طالبان کے نظریات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ کئی دیہات میں تو پندرہ اگست کو خوشیاں منائی گئی تھیں اور دیہاتیوں نے طالبان کے اقتدار کا خیر مقدم کیا تھا۔

لیکن پھر بھی گزشتہ بیس برسوں کے دوران افغان باشندوں کی سوچ بدلی ہے۔ بے شک دیہاتی علاقے ہوں، وہاں بھی لوگ اب اپنی بچیوں کو تعلیم دینے چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے مقامی آبادی کے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے سالار میں بچیوں کے لیے ایک ایلمنٹری اسکول چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن کیا ان لڑکیوں کے لیے صرف ابتدائی تعلیم ہی ہو گی۔


سن دو ہزار سات میں طالبان نے صوبہ وردک میں لڑکیوں کے متعدد اسکولوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ لیکن ایک دہائی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد افغان عوام میں ایک نیا رویہ پیدا ہو چکا ہے۔

سالار کے رہائشی عبدل ہادی خان کا خیال ہے کہ اگر طالبان نے بچیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تو ان کے خلاف مزاحمت شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے طالبان کو بھی اپنے مؤقف میں نرمی پیدا کرنا ہو گی۔


افغانستان میں ان بدلتے رحجانات کی ایک اہم وجہ اس ملک میں گزشتہ بیس سالوں سے جاری متعدد تعلیمی پروگرامز بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار میں جب طالبان پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے تو افغانستان میں ایک ملین میں سے ایک لاکھ بچیاں اسکول جاتی تھیں تاہم اب دس ملین میں سے چار ملین بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔