صحافی ہی نہیں اب صحافت بھی خطرے میں

Getty Images
Getty Images
user

ظفر آغا

جانباز صحافی گوری لنکیش کو کیوں اور کس نے مارا یہ بحث بے معنی ہے ۔ دنیا واقف ہے کہ گوری کا قتل کن طاقتوں نے کیا اور وہ طاقتیں کس نظریہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بس اس سلسلے میں محض اتنا ہی کافی ہے کہ بابری مسجد سے لے کر گجرات تک اور موب لنچنگ جیسی خونی سیاست کرنے والی طاقتیں اور تنظیموں کے ایک نہتھی اور معصوم صحافی گوری لنکیش کی جان لینا کیا مشکل ہے۔ سوال تو اب یہ ہے کہ اب اس ملک میں کتنے گوری لنکیش جیسے صحافی بچے ہیں۔ شاید اپنی جان کی بازی لگا کر اپنے قلم کی آبرو بچانے والے صحافی پورے ملک میں ایک درجن بھی نہ ملیں گے۔ کچھ بک گئے ، کچھ ڈر گئےاور کچھ کنارے لگا دیئے گئے۔وہ چند جو بچے ہیں ان کو گوری کے راستے بھیج دیا جائےگا ۔ اس لئے اب جو سوال ہے وہ یہ نہیں ہے کہ بے باک صحافی کیسے بچیں گے، سوال تو یہ ہے کہ آیا اب اس ملک میں آزاد صحافت بچے گی یا نہیں ! کیا اب صحافی بطور صحافی نہیں بلکہ درباری بن کر ہی زندہ رہ سکتا ہے!

جی ہاں ، گوری لنکیش کی موت اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ اب نظام کو صحافی نہیں درباری چاہیے۔ اور تلخ حقیقت یہی ہے کہ اب صحافی عنقا ہیں اور درباری بھرے پڑے ہیں ۔ لیکن ہندوستان کی شاندار صحافتی روایت درباری قصیدہ گوئی میں تبدیل کیسے ہو گئی ! کیو نکہ یہ ملک جہاں سن 1857 سے ابھی حال تک صحافت کی ایسی روایت رہی ہے کہ صحافیوں نے صدائے حق کے لئے توپ سے اڑا دیا جانا قبول کیا لیکن اپنے قلم کی آبرو نہیں قربان کی۔غدر کے بعد جب انگریز دہلی پر حاوی ہو گئے تو جس شخص کو سب سے پہلے توپ کے منھ پر باندھ کر شہید کیا گیا وہ ایک صحافی تھا اور ان کا نام تھا مولوی باقر جو اخبار نکالتے تھے، جس نے انگریز وں کے خلاف آواز بلند کر دی تھی۔ پھر جنگ آزادی کے دور میں گاندھی جی ، مولانا آزاد اور جواہر لال نہرو جیسے تما م قائد ین نے اخباروں کے ذریعہ عوام تک اپنی آواز پہنچائی اور جیل گئے اور ان کے اخباروں پر پابند ی لگی۔ ایسی شاندار روایت کے بعد اس ملک میں پچھلے چند برسوں کے اند صحافی کیسے درباری بن گئے!

یہ کوئی بڑی حیران کن داستان نہیں ہے۔ ہم نے دہلی کے میدان صحافت میں تیس برس سے زیادہ کا عرصہ گزارا ہے اور اس عرصے میں خود اپنی آنکھوں سے صحافت کا کایا پلٹ ہوتے دیکھا ہے۔بات یہ ہے کہ اس ملک کی صحافت کو چوپٹ کرنے کا سہرا الیکٹرانک جر نلزم یعنی ٹی وی صحافت کو جاتا ہے۔ ہندوستان میں ٹی وی صحافت کا عروج سنہ 1990 کی دہائی میں ہوا۔ قصہ یوں ہے کہ جب پرائیویٹ ٹی وی نیوز چینل شروع ہوئے تو صحافت انڈسٹری میں ایسی کوئی ریل پیل نہیں تھی کہ لوگ آسانی سے ہر روز چوبیس گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینل کا خرچ برداشت کر سکتے ۔ اخبار چلانے کے لئے اگر سو کروڑ روپیہ چاہیے تھا تو ایک ٹی وی چینل چلانے کے لئے کم از کم ایک ہزار کروڑ روپئے سالانہ کی رقم چاہیے تھی۔ لوگوں نے چینل تو چلا دیئے لیکن ان کے پاس اتنا پیسہ تو تھا نہیں کہ چینل کو چلائے رکھا جائے۔ اب کیا ہو!

بس اس ’ اب کیا ہو‘ کا ذریعہ تلاش کرنے میں ہی ٹی وی نیوز چینل نے ہندوستانی صحافت کو درباری صحافت بنا دیا ۔ کیو نکہ چینل چلانے کے لئے جو دولت چاہیے تھی اس کے دو ہی راستے تھے ۔ پہلا راستہ حکومت سے بڑی بڑی رقم پر ایڈ لاؤ تا کہ چوبیس گھنٹے کا خرچہ نکل سکے ۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کے دروازے کھٹکھٹاؤ اور ان سے کہو کہ پیسہ لگاؤ، اور چینل کے مالکان نے یہ دونوں ہی ر استے اپنائے۔

جب مالک حکومت وقت کے پاس لمبے ایڈ مانگنے گیا تو سرکار نے بغیر کچھ کہے سنے اشتہار دے دیے۔ لیکن جب اسی چینل نے حکومت کے خلاف شور مچایا تو اشتہار روک دیا۔ اب چینل کا دَم گھٹنے لگا تو مالک، ایڈیٹر بھاگ کر حکومت کے پاس گیا اور روداد سنائی کہ ہم تو مر جائیں گے۔ سرکار نے اشارہ دیا کہ اگر اشتہار چاہیے تو نکتہ چینی بند کیجیے اور قصیدہ گوئی کیجیے۔ مرتا کیا نہ کرتا مالک نے صحافیوں کے ہاتھ مروڑے اور خاموشی سے پیغام دے دیا کہ خاموش ہو جاؤ۔

اس طرح کچھ مالکان سرمایہ داروں کے پاس گئے کہ ہماری مدد کر دیجیے۔ سرمایہ دار نے تھیلی کھول دی۔ جب چینل قرضہ میں ڈوب گیا تو مٹھی بند کر دی۔ اب جب سانس گھٹی تو چینل مالک نے کہا کہ حضور کچھ اور مدد۔ سرمایہ دار بولا ہم کو کیا نفع ہے۔ پھر کیا بھائی حکومت سے ہمارا یہ کام کرواؤ تو اور پیسہ مل جائے گا۔ اب مالک نے صحافیوں اور اینکر کے ہاتھ مروڑے۔ اینکر اور صحافی لاکھوں تنخواہ کا عادی ہو چکا تھا۔ اس نے سوچا ایک کام کروانے میں کیا جاتا ہے۔ بس اب کیا تھا یہ دھندا ہو گیا۔ صحافی درباری ہو گیا، چینل ’ریپبلک‘ جیسوں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر سرکار کی قصیدہ گوئی یا ایجنڈا نافذ کرنے لگ گئے۔

اب یہ عالم ہے کہ گوری جیسے باضمیر صحافی یا تو مارے جاتے ہیں یا نوکری سے باہر کر دیے جاتے ہیں۔ صحافت کے میدان میں نوکریاں صلاحیت پر نہیں بلکہ اس بنا پر ملتی ہیں کہ کون اینکر یا کون صحافی کس وزیر یا وزیر اعظم سے کتنا قریب ہے۔ اب تو یہ بھی ہو رہا ہے کہ صحافیوں سے مینجمنٹ یہ اشارہ کرتا ہے کہ اگر اشتہار لاؤگے تو تم کو اتنا فیصد کمیشن ملے گا۔ جو ایڈ دیتا ہے وہ صحافی سے کہتا ہے ہمارے حق میں لکھو بس اس کا نام ’پیڈ جرنلزم‘ ہے۔ مالک بھی خوش، صحافی بھی خوش اور لکھوانے والا بھی خوش۔ اس کو آپ صحافت تو نہیں دربار گیری ہی تو کہیں گے۔ بادشاہوں کے دربار میں قصیدہ گو ہوتے تھے اور فن شاعری میں ماہر ہوتے تھے۔ لیکن آج چینلوں پر بیٹھے بیٹھے چیخنے والے صحافی کو بھانڈ سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

لیکن افسوس، اس بھانڈ گیری میں ہندوستان کا صحافی ہی نہیں بلکہ پوری کی پوری صحافت ہی ڈوب گئی۔ جو جانباز صحافی بچے یا تو وہ بھوکوں مر رہے ہیں یا گوری لنکیش کی طرح موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں۔ بھلا اب ان حالات میں صحافت ہو تو ہو کیسے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔