مسلم پرسنل لاء کا شگوفہ اب کیوں!

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

ایک اور نیا شگوفہ! مودی سرکار طلاق ثلاثہ کو پوری طرح ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں جلد ہی ایک بل پیش کرے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کر چکا ہے تو پھر اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون سازی کی کیا ضرورت؟ مودی حکومت کا جواب یہ ہے کہ وہ طلاق ثلاثہ کے ذریعہ مسلم عورتوں پر ہونے والے ’مظالم‘ سے بے حد پریشان ہے، اس لیے اس لعنت کو وہ پوری طرح ختم کرنے پر آمادہ ہے۔ تو دوسرا سوال یہ ہے کہ مودی حکومت کو پوری مسلم قوم کی فلاح سے تو کوئی دلچسپی نہیں لیکن مسلم عورت کے لیے اس کا دل ہر وقت کیوں دھڑکتا رہتا ہے۔ حالانکہ مسلم عورت سے بی جے پی کی ہمدردی کا یہ عالم ہے کہ آج بھی سوشل میڈیا پر وہ تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں زبردستی بی جے پی کارکنان اترپردیش میں ایک ریلی میں مسلم عورت کا برقع زبردستی اتار رہے ہیں۔

صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو نہ تو مرد اور نہ ہی عورت بلکہ پوری مسلم قوم کی فلاح میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کا ایجنڈا تو مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ تب ہی تو کبھی موب لنچنگ، کبھی بابری مسجد انہدام تو کبھی گجرات فسادات جیسے مسلم مخالف ہنگامے بی جے پی کے زیر سایہ بپا ہوتے رہتے ہیں۔ تو پھر طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے ذریعہ قانونی پابندی عائد ہونے کے بعد بھی اس کے خلاف پارلیمنٹ میں قانون بنانے کا مقصد کیا! اب حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ خبریں آ رہی ہیں کہ طلاق ثلاثہ کی رسم مسلمانوں میں ابھی بھی قائم ہے۔ اس لیے پوری طرح اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے ایک قانون بنانا ضروری ہے تاکہ اس سے پریشان عورتیں اس سلسلے میں فوراً پولس کی مدد حاصل کر سکیں!

طلاق ثلاثہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ خود مسلم پرسنل لاء بورڈ یہ مانتا ہے کہ قرآن میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہ رسم تو رسول کریم کی وفات کے بعد رائج ہوئی جس کے بنیادی طور پر سماجی اسباب ہیں۔ دراصل طلاق ثلاثہ مردوں کو عورتوں پر قدرت عطا کرتا ہے اور یہ لعنت جدید دور سے قبل کسی نہ کسی شکل میں ہر معاشرے میں پائی جاتی تھی۔ مسلم معاشرے میں اس لعنت نے طلاق ثلاثہ کی شکل اختیار کی جس کی شرعیہ پر قدرت رکھنے والے مرد علماء نے اپنی تائید کر دی۔ یعنی یہ ایک سماجی لعنت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سماجی لعنت کسی بھی سماج میں محض قانون سازی کے ذریعہ ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو ہندو سماج سے چھوا چھوت جیسی غیر انسانی لعنت سنہ 1952 میں آئین سازی کے بعد ختم ہوگئی ہوتی اور ہندو سماج میں آج کوئی دلت ہوتا ہی نہیں۔ لیکن عالم یہ ہے کہ ابھی پچھلے ماہ گجرات میں کچھ دلت لڑکوں نے اونچی مونچھ رکھ لی تو ان کی پٹائی ہو گئی۔ یعنی سماجی لعنت قانون بنانے سے ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ یہ ایک ذہنی لعنت ہے جس کو سماجی سطح پر ایک ذہنی اور فکری جنگ کے ذریعہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اور مودی سرکار کوئی بچہ نہیں کہ اس کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ تو پھر طلاق ثلاثہ کے خلاف یہ ہنگامہ ایک بار پھر کیوں!

مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی جب بھی پریشان ہوتی ہے تو اس کو مسلمان یاد آتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ مسلمانوں کا کوئی بھلا کر دے بلکہ اس لیے کہ کسی طرح مسلم حوا کھڑا کر ہندو رد عمل پیدا کیا جائے اور پھر ہندو ووٹ بینک کی سیاست کر چناؤ میں ہندو ووٹ بھنائے جائیں۔ اس وقت خود نریندر مودی مصیبت میں ہیں اور ان کے ساتھ بی جے پی بھی سخت پریشان ہیں۔ مسئلہ گجرات چناؤ کا ہے جو خبروں کے مطابق مودی کے ہاتھوں سے نکلتا لگ رہا ہے۔ سنہ 2003 کے گجرات اسمبلی چناؤ کے بعد سے اب تک وہاں چل رہا حالیہ چناؤ وہ پہلا چناؤ ہے جب گجرات میں ہندو-مسلم لائن پر چناؤ نہیں ہو رہے ہیں اور مودی جی ابھی تک ’ہندو انگ رکشک‘ (ہندو محافظ) کا روپ نہیں اختیار کر سکے ہیں۔ اس کے بجائے گجرات میں چناؤ ابھی تک ذات کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ پٹیل پٹیل مفاد میں ووٹ کی بات کر رہا ہے، پسماندہ ذاتوں کا اپنا ایجنڈا ہے، دلت اعلیٰ ذاتوں کے مظالم سے پریشان جگنیش کے ساتھ ہیں اور یہ تمام ذاتیں کانگریس کو اپنا مسیحا مان رہے ہیں۔

یعنی گجرات کے چناؤ ابھی تک ’کمنڈل‘ نہیں بلکہ ’منڈل‘ کی لائن پر چل رہے ہیں۔ مودی اور بی جے پی کے لیے اس سے بڑی کوئی اور مصیبت نہیں ہو سکتی ہے اس لیے گھبرائی گھبرائی بی جے پی کبھی تاج محل تو کبھی موب لنچنگ تو کبھی تین طلاق جیسے تنکوں کا سہارا لے کر مسلم حوا کھڑا کر گجرات میں ہندو ووٹ بینک بنانے کی کوشش میں ہے۔ اسی طرح کا شوشہ چھوٹ کر پھر ’بندھوا‘ میڈیا کے ذریعہ ٹی وی پر ایک مولوی نما شخص کو بڑھا کر بے معنی اور لغو بحث کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے تاکہ ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلے اور ہندو مودی بھگت کی طرح ووٹ ڈالیں۔

طلاق ثلاثہ کا شگوفہ اسی حکمت عملی کی نئی کڑی ہے جس کے تحت تاج محل پر چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ اس لیے ایسی باتوں پر کسی قسم کے رد عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر گجرات میں کوئی ’مسلم فیکٹر‘ نہیں پیدا ہوتا ہے تو چناؤ ’کمنڈل‘ نہیں ’منڈل‘ لائن پر ہی ہوگا۔ جب جب چناؤ دھرم کے بجائے ذات پر ہوتا ہے تب تب بی جے پی کو منھ کی کھانی پڑتی ہے اور بی جےپی یہ جانتی ہے۔ اسی لیے محض مسلم پرسنل لاء ہی نہیں گجرات چناؤ تک ایسے بہت سے شگوفے کھلتے رہیں گے۔ بس دم سادھے رکھیے اور خود پریشان ہونے کے بجائے ان کو پریشان ہونے دیجیے۔ اسی میں بقا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔