بھارت چھوڑو نعرے کا خالق- یوسف مہر علی، تحریک کی 79ویں سالگرہ کے موقع پر

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت اور عوام دونوں نے ان کی قربانیوں کے تئیں سرد مہری کا مظاہرہ کیا بموجب موجودہ نسل کے بیشتر لوگ ان کے کارنامے تو کیا ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں!

یوسف مہر علی / تصاویر شاہد صدیقی علیگ
یوسف مہر علی / تصاویر شاہد صدیقی علیگ
user

شاہد صدیقی علیگ

بمبئی کے گوالیاٹینک میدان پر 8 اگست 1942 کو کُل ہند کانگریس کمیٹی نے بھارت چھوڑو قرارداد منظور کی اور 9 اگست کو ہندوستان کا ہرخاص و عام اس میں کود پڑا۔ جسے دیکھ کر انگریزی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اس تاریخی حقیقت سے واقف ہیں کہ جدوجہد آزادی کے دو ایسے نعرے جو تاریخ ہند میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے موجد بمبئی کے میئر یوسف مہر علی تھے، جو مہاتما گاندھی سے نزدیکی قرابت رکھتے تھے اورجن کا شمار جے پی و لوہیا جیسے صف اول کے سو شلسٹ رہنماؤں میں ہوتا تھا وہ باد مخالف کے آگے چٹان کی طرح ڈٹے رہے، جنہوں نے برطانوی نو آبادیاتی نظام سے بازیابی کے لیے آٹھ مرتبہ پابند سلاسل کا سفر طے کیا۔ تحریک آزادی میں ان کی اتنی بڑی شراکت ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتالیکن افسوس صد افسوس!

یوسف مہر علی 2 ستمبر 1903 کو ممبئی کے ایک اشرافیہ خواجہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ جن کے دادا کو بمبئی میں پہلا کپڑا مل لگانے کا بھی شرف حاصل ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیم کلکتہ اور ممبئی سے حاصل کی۔ یوسف نے 1920 میں بھردہ ہائی اسکول سے میٹرک اور گریجویشن تاریخ و اقتصادیات میں ایلفنسٹن (Elphinstone) کالج سے 1925 ء میں پاس کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔تعجب خیز بات ہے کہ ایک کاروباری اور ثروت مند گھرانے کے بچے کا دل ظلم وزیادتی ،محنت کشوں ،مزدوروں اور غریبوں کے لیے دھڑکنے لگا تھا جو آگے چل کر ہندوستان کا ایک معروف مجاہد آزادی اور سماجی مصلح بنا۔


مہر یوسف علی سن شعور میں قد م رکھنے سے قبل ہی عملی تحریک میں حصہ لینے لگے تھے، کیونکہ دوران ہائی اسکول ان کا جھکائو انقلابی ادب پر ہوگیا، انہوں نے دنیا کی مشہور تحریکوں میںشامل نوجوان انقلابیوں کے خاکے پڑھنے شروع کردیے ، جن سے متاثر ہوکر ان کے اندر بھی انقلابی لاواجوش مارنے لگا، جس کے پھوٹنے کا نظارہ اہل ہند نے اس وقت دیکھا جب فروری 1928 ء میں بمبئی کے ساحل پر سات برطانوی پارلیمنٹ ممبران پے مشتمل سائمن کمیشن کا قافلہ لنگر انداز ہوا، اگرچہ کمیشن آئینی اصلاحات کی تجویز کے لیے آیا تھا لیکن اس میں ایک بھی ہندوستانی ممبر نہیں تھا۔

برطانوی حکومت کے اس غیر منصفانہ اور توہین آمیزفعل کے خلاف ہندوستانیوں میں سخت غم و غصہ تھا، جس کے احتجاج کی خفیہ حکمت عملی مہر یوسف علی نے بھی تیار کی۔ انہوں نے اپنے ساتھی رضاکاروں کے ساتھ کمیشن کے ممبروں کو سیاہ جھنڈوں اور ’’سائمن گو بیک‘‘ نعروں کے ساتھ استقبال کیا، جن کی گونج سے ہندوستان تا انگلستان کے برٹش ایوان دہل گئے۔

یوسف مہر علی کی ہمت وحوصلہ اور نعرہ راتوں رات مہاتما گاندھی سمیت ہندوستان کے سرکردہ لیڈران کی زبان پر چڑھ گیا۔ جب دو سال بعد 12 مارچ 1930 کو مہاتما گاندھی نے نمک ستیہ گرہ کا بگل پھونکا تو مہر یوسف علی نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی پاداش میں انہیں چار ماہ جیل کی صعوبیتں برداشت کرنی پڑیں، لیکن ان کے پائے استقامت میں جنبش بھی نہ آئی لیکن وہ انگریزوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے۔ چنانچہ 1932 میں ایک بار پھر مہر علی کو برطانوی عہدیداروں نے سازش بننے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور انہیں ناسک جیل میں دو سال ایام اسیری گزارنے پڑے۔ جہاں ان کوجدوجہد آزادی کے بنیاد پرست سوشلسٹ رہنماؤں سے تبادلہ خیال کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا۔ 1934 ء میں رہائی کے بعد، جئے پرکاش نارائن، اشوک مہتا، نریندر دیو، اچیوت پٹوادھن، مینو مسانی اور دیگر کے ساتھ مل کر کانگریس سوشلسٹ پارٹی قائم کی داغ بیل ڈالی۔ ان کی ہمہ گیر صلاحیتوں سے برطانوی حکومت اتنی خوفزدہ تھی کہ انہیں بمبئی ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے سے بھی روک دیا۔ حالانکہ اس دوران بہت سے قوم پرست رہنما وکالت کر رہے تھے۔


سال 1938 میں مہر علی نے میکسیکو میں منعقدہ عالمی ثقافتی کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ کا سفر کیا، لیکن اس جلسے سے قبل نیویارک کی ورلڈ یوتھ کانگریس میں ہندوستانی وفد کی قیادت کی۔ جہاں مغرب کے مقابلے ہندوستان میں عصری مسائل پر ادب کی کمی جو محسوس کیا، اس خلا کو پر کرنے کے لیے انہوں نے ’ہندوستان کے قائدین‘ کے عنوان سے کتابوں کا ایک سلسلہ لکھا جس میں موجودہ موضوعات پر توجہ دی گئی اور جن کا ترجمہ اردو، گجراتی ، اورہندی میں کیا گیا۔جب مہر علی 1942 میں لاہور جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے تو انہیں بمبئی بلدیے کے میرٔ کے طورپر انڈین نیشنل کانگریس نے نامزد کیااورا نتخابات میں حصہ لینے کے لیے جیل سے رہا کیے گئے، مہر علی اپنی ذہانت اور غریب پروری کے سبب آرام سے جیت گئے ، وہ بمبئی کی میونسپل کارپوریشن کی تاریخ کے سب سے کم عمر میئر بنے ۔ اپنے دور حکومت میں موثر شہری خدمات کو یقینی بنانے کے لئے اپنی لگن کی وجہ سے وہ عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ 14 جولائی 1942 کو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کا وردہ میں اجلاس ہوا جس میں مشاورت سے طے پایا کہ ایک بڑی سول نافرمانی کی مہم چلائی جائے۔ جس کے لیے کا نگریس کو آزاد ہند فوج کے میجر عابد حسن حیدرآبادی کے ’جے ہند‘ جیسے نعرے کی اشد ضرورت تھی، جسے سنتے ہی ہندوستانیوں کے دل و دماغ پر وجد طاری ہو جائے۔ بمبئی میں منعقد ہوئی میٹنگ میں مہاتما گاندھی نے کانگریس کے متعدد قائدین سے آزادی کے پرجوش نعرے تشکیل دینے کے لیے کہا، جن کی ایما پر بعض ارکان نے نعرے گڑھے لیکن مہاتما گاندھی نے یکے بعد دیگرے نعروں کو خارج کر دیا تب مہر علی نے مہاتما گاندھی کے سامنے ’بھارت چھوڑو‘ نعرہ پیش کیا۔

بقول شانت کمار مرارجی، ’’بمبئی میں گاندھی جی نے اپنے ساتھیوں سے آزادی کے بہترین نعروں بنانے متعارف کرنے کے لیے کہا۔ ان میں سے ایک نے مشورہ دیا نکل جاؤ۔ گاندھی جی نے اسے بے ادبی سے تعبیر کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ سی راجا گوپالاچاری نے ’پیچھے ہٹنا‘ یا ’دستبرداری‘ تجویز کی، اسے بھی کوئی توجہ نہیں ملی۔ یوسف مہر علی نے گاندھی کو ’بھارت چھوڑو‘ نعرہ پیش کیا، جسے گاندھی جی نے فی الفور منظور کرتے ہوئے کہا آمین!

علاوہ ازیں مہر علی نے بلا عجلت ایک ہزار سے زیادہ بینرس وغیرہ تیار کرائے اور پورا پنڈال بھارت چھوڑو بینرس اور پوسٹرس سے پاٹ دیا۔ ان کے سوانح نگار مدھو ڈنڈوتے کے مطابق، مہر علی نے 1942 کی تحریک کے موقع پر ’بھارت چھوڑو‘ کے نام سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا جو چند ہفتوں میں ہی فروخت ہو گیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی زیر صدارت 7 اگست 1942 کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا گووالیا ٹینک میدان میں اجلاس ہوا جو آدھی رات کے بعد اگلے دن 8 اگست تک جاری رہا۔ جس میں مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی نے زبردست تقاریر کیں۔


اگلے دن اگست کو بھارت چھوڑو تحریک ملک گیر پیمانے پر شروع ہو گئی، جسے دیکھ کر انگریز حکام کے حواس باختہ ہو گئے، انہوں نے گھبراکر اسی روز انڈین نیشنل کانگریس کے سرکردہ قائدین کو گرفتار کر لیا تاہم مہر علی نے روپوش رہ کر اپنے سوشلسٹ ساتھیوں ارونا آصف علی، رام منوہر لوہیا کے ہمراہ بھارت چھوڑو تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے انتھک کوششوں کیں، آخرکار انہیں بھی حراست میں لے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔

دوران قید مہر علی کو دل کا دورہ پڑا لیکن انہوں نے انگریزی حکومت سے کسی طرح کی طبی سہولیت لینے سے انکار کر دیا۔ انہیں 1943 میں قید فرنگ سے رہائی ملی۔ علیل رہنے کے باوجود، انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں شرکت کرنا جاری رکھا، انہوں نے 1949 میں اپنی مصوری کی ایک نمائش کا اہتمام کیا، جس میں انہوں نے پینٹنگز کے ذریعہ جدوجہدآزادی کے رموز و نیاز سے عوام کو روشناس کرانے کی مساعی کی۔ لیکن وقت کا پہیہ گھومنے کے ساتھ آزادی کا یہ عظیم جنگجو بیماریوں میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا مگر دنیا کو الوداع کہنے سے قبل وہ اپنی نظروں سے مادر ہند کو آزاد دیکھنا چاہتا تھا، جسے کاتب تقدیر نے بھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ الغرض مہر علی نے اپنی ٹمٹماتی آنکھوں سے 15 اگست 1947 کو قلعہ معلی پر یونین جیک کی جگہ ترنگے کو لہراتا دیکھ کر سکون کی سانس لی اور آزادی کے چند سال بعد یعنی 2 جولائی 1950 کو یوسف مہر علی محض 47 سال کی عمر میں ابدی نیند سوگئے۔ جیسے ہی ان کے انتقال کی خبر لوگوں تک پہنچی ممبئی تھم گئی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت اور عوام دونوں نے ان کی قربانیوں کے تئیں سرد مہری کا مظاہرہ کیا بموجب موجودہ نسل کے بیشتر لوگ ان کے کارنامے تو کیا ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔