’دنیا بدلی، بدلو ورنہ غلامی ہی مقدر ہے‘ … ظفر آغا

AI اور Robotics روزگار کے طریقوں میں ایک انقلاب بپا کرنے جا رہے ہیں، ہندوستانی مسلمان زیادہ تر مشقت کا کام کرتا ہے، ظاہر ہے کہ نئے انڈسٹریل انقلاب سے سب سے زیادہ بے روزگاری مسلمانوں میں پھیلے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

کل یعنی 11 نومبر کا روز ہندوستان میں بطور ’قومی یومِ تعلیم‘ منایا جاتا ہے۔ یہ ایک بجا امر بھی ہے کیونکہ مولانا آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے اور ان کی یوم پیدائش سے بہتر کوئی اور ’یومِ تعلیم‘ ممکن نہیں ہے۔ دراصل جدید ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں دو ہی شخصیتیں گزری ہیں جن کو دور جدید کی بصیرت حاصل تھی۔ پہلی شخصیت سر سید احمد خان کی تھی اور دوسری مولانا آزاد کی۔ سر سید احمد خان کا کمال یہ تھا کہ وہ برصغیر ہند کے مسلمانوں میں پہلے شخص تھے جنھوں نے بخوبی سمجھا کہ مسلمانوں کا مقدر اس انڈسٹریل دور میں خود کو جدید تعلیم سے جوڑنے میں ہی ہے۔ دوسری جانب مولانا ابوالکلام آزاد وہ شخص تھے جنھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے حل بھی پیش کیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مولانا ملک کے بٹوارے کے سخت مخالف تھے کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ بٹوارا ہندوستانی مسلمان کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور وہی ہوا۔ بٹوارے کے بعد نہ تو ہندوستانی مسلمان اور نہ ہی پاکستانی مسلمان کو چین نصیب ہوا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر کی کگار پر ہے اور تعلیمی اعتبار سے ہندوستانی مسلم بدترین حال میں ہے۔

مولانا آزاد کی یوم پیدائش پر سب سے بہتر خراج عقیدت یہی ہو سکتا ہے کہ ہندوستانی مسلم اقلیت کو ایک بار پھر سے تعلیم سے جوڑنے کی تحریک کھڑی کرنے کی کوشش ہو تاکہ ، وہ اپنی پستی سے باہر نکل سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب جو تعلیمی تحریک چلے وہ کس قسم کی تعلیمی بیداری پیدا کرنے کی حامل ہو! یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب کہ اس بات کا سہی اندازہ ہو کہ دور حاضر کے تقاضے کیا ہیں! کیونکہ تعلیم دور حاضر پر قدرت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے پہلے اس 21ویں صدی کے تیز رفتار دور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

آج ہم اس صدی میں جس دور میں جی رہے ہیں وہ ایک بہت بڑے تغیر کا دور ہے۔ بقول مفکرین آج بنی نوع انسان کو چوتھے انڈسٹریل انقلاب کا سامنا ہے۔ یہ چوتھا انڈسٹریل انقلاب کیا ہے! آج ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں اسے ’ای دنیا‘ یعنی الیکٹرانک دنیا کہا جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں Artificial Intelligence یعنی ’مصنوعی فکر و سمجھ ‘اور چلتے پھرتے روبوٹکس یعنی چلتے پھرتے کم و بیش مصنوعی انسان کی بھی ایجاد ہو چکی ہے۔ آج کمپیوٹر ’ای نالج‘ کے ذریعہ دنیا کا ہر کام کر رہا ہے، مثلاً اگر آپ کو ریل یا ہوائی جہاز کا ٹکٹ بک کرنا ہے تو اب آپ گھر میں بیٹھے بیٹھے اپنا ٹکٹ بک کر لیجیے۔ اپنے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے اس کا بھگتان بھی کر دیجیے۔ اسی طرح اگر چاہیے تو پیاز ٹماٹر سے لے کر گھر کے لیے فریج اور واشنگ مشین جیسی اشیا گھر سے ہی خرید لیجیے، یہ ایک E-Revolution ہے۔

اب سیدھی سی بات یہ ہے کہ یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس E-Knowledge ہو۔ اگر وہ اس کا اہل نہیں اور اس کے پاس بھلے ہی بی اے، ایم اے جیسی ڈگری کیوں نہ ہو وہ اپنا کام E کے ذریعہ سے نہیں کر پائے گا۔ اور جو یہ نہیں کر پائے گا وہ پسماندہ رہ جائے گا اور اپنے زمانہ میں نکھٹو ہو کر رہ جائے گا۔ یہ بات اس طرح ہے جیسے سر سید کے وقت میں جس کو انگریزی نہیں آتی تھی وہ پسماندہ ہو گیا۔ ایسے ہی اب جو کمپیوٹر اور ’ای انقلاب‘ سے جڑا نہیں ہے وہ اپنے دور میں اچھوت ہو کر رہ جائے گا۔ میں نے لفظ اچھوت بے مقصد استعمال نہیں کیا ہے۔ جس شخص کے پاس یہ ہنر نہیں ہوگا وہ نوکری کے بازار میں اچھوت ہی رہے گا کیونکہ ’ای ایجوکیشن‘ کے بغیر اس کو کوئی روزگار نہیں میسر ہوگا۔ جس کے پاس روزگار نہیں وہ دنیا میں بے کار ہی تو ہوگا۔

پھر AI (مصنوعی سوچ ) اور Robotics دو ایسی نئی ایجاد ہیں جو کام کاج اور روزگار کے طریقوں میں ایک انقلاب بپا کرنے جا رہی ہیں۔ مثلاً، اب دنیا میں بہت جلد ایسی کار اور دوسری گاڑیاں آنے والی ہیں جو بغیر ڈرائیور کے چلیں گی۔ بلکہ امریکہ میں ایسی گاڑیاں چل بھی پڑی ہیں۔ پھر اب بجلی کے بجائے زیادہ تر مشینی کاروبار بیٹری سے ہوگا۔ پھر محنت و مزدوری کا کام زیادہ تر انسانوں کے بجائے روبوٹ کریں گے۔ اس کے معنی کیا ہوئے؟آج جو ڈرائیوری سے اپنا کام چلا رہا ہے وہ بے کار ہو جائے گا۔ مثلاً جو گھر بنانے کی مزدوری کرتا تھا اس کی مزدوری روبوٹ کھا جائے گا۔ ہندوستانی مسلمان زیادہ تر اسی قسم کی مشقت کا کام کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نئے انڈسٹریل انقلاب سے سب سے زیادہ بے روزگاری مسلمانوں میں پھیلے گی۔

پھر وسط ایشیا یعنی عالم عرب میں زبردست سیاسی و معاشی اتھل پتھل ہو رہی ہے۔ دنیا میں تیل کے بھاؤ کم ہونے کی وجہ سے تیل کی دولت پر اثر پڑا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک باہر سے آئے کام کرنے والوں کو ہٹا کر وہ روزگار اپنے باشندوں کو دے رہے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سن 1970 کی دہائی سے اب تک عالم عرب کے روزگار نے ہندوستانی مسلم اقلیت کی معاشی تبدیلی و ترقی میں ایک نمایاں کردار نبھایا ہے۔ وہ ذریعہ معاش نہ صرف اب خطرے میں ہے بلکہ اب ختم ہوتا چلا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس پس منظر میں نئے Job Markets کی تلاش ہوگی اور وہ نئے روزگار کے بازار اب مغرب میں ہی ہو سکتے ہیں۔

یعنی اب صرف مسلم اقلیت ہی نہیں بلکہ ہر قوم کے لیے ایک نئی تعلیمی بیداری اور تحریک کی ضرورت ہے۔ اس تحریک کے تین اہم جز ہونے چاہئیں۔ اولاً، نئی نسل کے بچوں کو ’ای تعلیم‘ دی جائے تاکہ وہ نئی ’ای دنیا‘ میں کامیاب ہو سکیں۔ پھر مصنوعی سمجھ اور روبوٹکس جیسی نئی اسکل اور اس کے ذریعہ پیدا ہونے والی نئی تعلیم پر مہارت ضروری ہے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ عرب دنیا کے بجائے مغربی دنیا میں تلاش روزگار ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم انگریزی کی تعلیم حاصل کی جائے۔

یعنی اس دور جدید میں ایک نئی تعلیمی بیداری کی ضرورت ہے تاکہ بدلتے زمانے کے ساتھ مل کر ترقی کی راہ پر چلا جا سکے۔ لیکن اگر ہندوستانی مسلم اقلیت سر سید اور مولانا آزاد جیسے مفکرین اور قائدین کو برطرف کرتا رہا ہے اور اب بھی غافل رہا تو غلامی کی بیڑیاں ہی مقدر ہوں گی۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Nov 2017, 10:08 AM