کیا اب انسان مشین کا غلام ہوجائےگا؟... سید خرم رضا

انسان کے سامنے معاشی تنگی ایک ایسا مسئلہ ہے جو سماج کو تارتار کرنے کے لئے اکیلا ہی کافی ہے۔ حکومتوں اور قائدین وقت کا اصل امتحان اس وباء کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

ان دنوں کو گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے جب ہم موبائل کے ’ایم‘ اور انٹرنیٹ کے ’آئی‘ سے بھی واقف نہیں تھے۔ 25 سال پہلے یعنی بہت سے لوگوں کا بچپن اور ہمارے جیسے لوگوں کی جوانی کے وقت دنیا کے ’مٹھی میں ہونے کا تصور‘ نہیں کیا جا سکتا تھا، مطلب یہ کہ اس وقت نہ تو موبائل ہر شخص کے پاس تھا اور نہ انٹرنیٹ کی خدمات اتنی عام تھیں کہ گھر بیٹھے سارے کام کر لیتے۔ اگر وبائی مرض کورونا اس وقت سماج میں پھیل جاتا تو اس وائرس سے کتنی جانیں جاتیں اس کا تو اندازہ لگانا ہی مشکل ہے، لیکن گھروں میں قید رہ کر زندگی کے تمام ضروری کام کرنا تو ناقابل تصور ہی تھا۔ آج شہروں میں بینک سے لے کر آفس اور کھانے سے لے کر دوائیوں تک کی آن لائن خدمات حاصل ہیں۔ اس موبائل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے آج کچھ امور کو چھوڑ کر زیادہ ترکام ’ورک فرام ہوم‘ کے ذریعہ انجام پا رہے ہیں۔ یعنی آج گھروں میں جبراً قید ہو کر بھی معمولات زندگی پٹری پر نظر آرہی ہے اور ظاہر ہے اس کا سہرا سائنس کی ترقی کو ہی جاتا ہے۔

کورونا وائرس کی زد میں آج ہر ملک اور سماج کا ہر شخص ہے، چاہے وہ ملک ترقی یافتہ ہو یا غریب، چاہے وہ شخص بادشاہ ہو یا مزدور۔ اس وبائی وائرس کے علاج کے طور پر ہر شخص دوسرے شخص سے دوری رکھنے کے علاوہ کچھ اور چیز سامنے نہیں آ رہی ہے۔ ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ بنا کر رکھیے، بار بار ہاتھ دھوئیے، جب چھینک آئے تو ایسے ہاتھ رکھ کر چھینکیے، اگر نزلہ ہے تو چہرے پرماسک لگائیں وغیر وغیرہ۔ ان سب میں سب سے زیادہ زور جس چیز پر دیا جا رہا ہے وہ ہے ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ بنانا۔ یہ مرض مزید نہ پھیلے اور ایک دوسرے سے فاصلہ بنائے رکھیں اس کے لئے شہروں اور ملکوں میں لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ یعنی جو جہاں ہے وہ وہیں رہے کے فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے فون و انٹرنیٹ کے علاوہ ایک دوسرے سے رابطہ کا کوئی اور ذریعہ بھی نہیں ہے۔


سائنس داں اس پر متفق نظر آ رہے ہیں کہ اس وبا پر قابو پالیا جائےگا اور چین نے کسی حد تک اس کو ثابت بھی کر دیا ہے، لیکن کیا اس بیماری سے جنم لینے والے مسائل بھی ختم ہو جائیں گے یا ان مسائل کی وجہ سے ایک نئی دنیا اور ایک نئی تہذیب جنم لے گی جو موجودہ نو جوان نسل اور آنے والی نسلوں کے لئے نئے چیلنجز لے کرآئے گی۔ ظاہر ہے ہر دور میں ترقی کے ساتھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔ پہلے کوئی سڑک حادثہ میں نہیں مرتا تھا کیونکہ کوئی سڑک اور ٹریفک کا تصور ہی نہیں تھا لیکن جانوروں کے حملوں کا خوف اس وقت بہت زیادہ تھا جو آج نہیں ہے۔ بات صاف ہے کہ سائنسی ترقی سے انسان کو جہاں آرام ملتا ہے اور تیزی سے آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے وہیں یہ سائنسی ترقی کچھ نئے خطرات اور تقاضے لے کر سامنے آتی ہے۔

ہر دور میں انسان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ کیسے اس کا انحصار بالخصوص قدرت پر کم ہو جائے اور وہ اس کے لئے جدو جہد کرتا رہتا ہے۔ اس ترقی میں جہاں اس نے ایک ملک سے دوسرے ملک کے سفر کو چند گھنٹوں میں سمیٹ لیا ہے وہیں وہ دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کرنے کی فراق میں ہے لیکن ساری ترقی اور مسائل کا حل تلاش کرتے وقت اس کے گاؤں کی پرسکون زندگی شہر کے ہنگاموں کی نذر ہوگئی، اس کی سماجی زندگی فلیٹوں میں قید ہوگئی، اس کی ازدواجی زندگی کب ’لیواِن ریلیشن شپ‘ میں بدل گئی اس کو پتہ ہی نہیں چلا۔ بڑی لمبی فہرست ہے لیکن اس ترقی میں انسان کی ایک ہی خواہش تھی کہ اس کا دوسروں پر سے انحصار ختم ہو جائے اور کسی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوگیا ہے۔ کورونا وائرس کے اس قہر کے دوران وہ قید ضرور ہے لیکن محتاج نظر نہیں آیا، کیونکہ وہ ہر کام گھر سے کر رہا ہے چاہے وہ بینک سے پیسے بھیجنے یا منگانے کا ہو یا کھانا یا دیگر ضروری سامان منگوانے کا ہو۔


انسان نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ قید میں رہ کر بھی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر اس بات کوکہا جائے تو اس کو یوں کہا جائے گا کہ وہ بغیر کسی انحصار کے اکیلے زندگی گزار سکتا ہے۔ یہ سب سائنس کی ترقی سے ہی ممکن ہوا، لیکن ابھی بھی اس کو اس میں کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے۔ یعنی سامان منگواتے وقت وائرس کے ساتھ آنے کا خطرہ، بھوک اس کو ابھی بھی پریشان کرتی ہے، حاجت کے لئے وہ آج بھی مجبور ہے وغیرہ وغیرہ۔ کورونا وائرس کے اس قہر کے بعد انسانی ترقی کا نیا باب شروع ہوگا اور وہ یہ ہوگا کہ وہ مزید کوشش کرے گا کہ اسے بھوک نہ لگے، لگے تو اسے سبزی اور روٹی کی جگہ اس کا تصور کرنا ہی کافی ہو، اس کو حاجت کامسئلہ نہ پیش آئے یعنی وہ اکیلا کمپیوٹر جیسی مشینوں اور انسان نما روبوٹ کے ساتھ زندگی گزار سکے۔

کورونا وائرس کی اس وبا کے بعد انسان جو اپنی محتاجگی کو ختم کرنے کے لئے کوششیں شروع کرے گا اس سے وہ مزید اکیلا ہو جائے گا اور اس کا انحصار انسانوں سے ہٹ کر مشینوں پر ہو جائے گا۔ بہت ممکن ہے کہ انسان جس کی آج مشینیں غلام ہیں وہ کل مشینوں کا غلام ہوجائے۔ اس کے اکیلے رہنے اور مشینوں کے غلام ہونے کی وجہ سے سماج میں جو آج کے مسائل ہیں جیسے مذہبی اور نسلی تصادم وہ تو ختم ہو جائیں گے لیکن نئی سائنسی لڑائی کے مسائل جنم ضرور لیں گے جو نتیجہ میں ایک نئی تہذیب یعنی ایک نئی سیولائزیشن کو جنم دیں گے۔ ویسے بھی انسان نے اپنی ارتقاء کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔


مستقبل طے کرے گا کہ انسانی ارتقاء کا سفر اسے کہاں لے جاتا ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے جو فوری مسائل سامنے آنے والے ہیں وہ بڑے پیمانہ پر بے روزگاری اور معاشی تنگی ہے جس کے نتیجہ میں جرائم اور سماجی ٹکراؤ میں شدید اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ معاشی تنگی ایک ایسا مسئلہ ہے جو سماج کو تارتار کرنے کے لئے اکیلا ہی کافی ہے۔ حکومتوں اور قائدین وقت کا اصل امتحان اس وباء کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔