ماں، بیوی، بچے نہیں یوزر آئی ڈی اور پاسورڈ آپ کے سگے ہوں گے... سید خرم رضا

نئی انسانی تہذیب میں جہاں کسی کو کسی چیز سے لگاؤ نہیں ہوگا بس ایک مشینی زندگی ہوگی وہاں آپ کو بس پاسورڈ اور یوزر آئی ڈی ضرور کچھ سالوں تک یاد رکھنے ہوں گے کیونکہ وہی اب آپ کے سگے ہوں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

آج گھر میں خود کو قید کیے ہوئے 26 روز ہو گئے ہیں۔ کورونا وائرس سے خود کو اور سماج کو بچانے کے لئے اپنے اپنے گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہ وقت گزار رہے ہیں اور ہم خوش نصیب ہیں، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو اتنے خوش نصیب نہیں ہیں۔ وہ بیچارے یا تو دوسرے شہروں میں یا پھر کوارنٹائن مراکز میں پھنسے ہوئے ہیں۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے بہت سے لوگ جہاں ویڈیو بناکر شیئر کر رہے ہیں، وہیں کچھ پرانی یادگار تصاویر شیئر کر رہے ہیں اور کچھ پرانے قصہ بتا رہے ہیں۔ رہا ایک دوسرے سے حاصل ہونے والی پوسٹس کا تو ان کو فارورڈ کرنے سے کوئی پرہیز نہیں کر رہا۔ ظاہر ہے وہ ایسا اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس آج وہ ہے جو پہلے ان کے پاس اپنے لئے نہیں ہوتا تھا یعنی ’وقت‘ اور دوسرا یہ کہ ایک ہی طرح کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے خود کو سماجی بنائے رکھنے کا یہی ایک ذریعہ بھی باقی نظر آ رہا ہے۔

جی، خود کو سماجی بنائے رکھنے کا انسان کے پاس یہی ایک ذریعہ بھی بچا ہے۔ جی، سماج انسان کے لئے بہت ضروری ہے۔ لا شعوری طور پر ہم سب کو اس بات کا احساس ہے کہ ہمارے لئے گھر سے نکلنا کتنا ضروری ہے، ہمارے لئے مذہبی فرائض اور رسومات ادا کرنا کتنا ضروری ہے، ہمارے لئے دوست اور عزیزوں کے ساتھ وقت گزارنا کتنا ضروری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ہماری زندگی کا ضروری حصہ ہیں، لیکن کیا آگے رہیں گے؟ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ ماضی کی بہت ساری چیزیں تاریخ بن گئی ہیں۔


خاندان کے لوگوں کا ساتھ رہنا، تیوہار ایک ساتھ منانا، شادیوں کی تقریبات میں کئی ہفتوں پہلے رشتہ داروں کا جمع ہونا، انتقال ہونے پر کئی کئی دن تک سوگوار خاندان کے ساتھ رہنا، یہ سب وہ باتیں ہیں جو آج کل چھوٹے گاؤں میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی، کیونکہ خاموشی سے یہ تبدیلی ان سب کو ڈس گئی۔ ایک ساتھ رہنے کا تصور ہی ختم ہوگیا یعنی جو کئی گھروں کے بیچ میں کھڑکی یا چھوٹے دروازہ ہوتے تھے ان کا ہونا تو دور اب نئی نسل کو سمجھانا بھی مشکل ہے، شادی تو بس وقت پر تقریب گاہ میں پہنچ کر لفافہ دینے کی حد تک رہ گئی ہے، انتقال ہونے پر آخری وقت تک یہ پوچھا جاتا ہے کہ تدفین کے لئے چل پڑے یا نہیں کیونکہ اب لوگ سیدھے قبرستان پہنچ جاتے ہیں۔

یہ وہ چیزیں ہیں جو پہلے کے لوگوں کے لئے زندگی کا لازمی حصہ ہوا کرتی تھیں، لیکن اب تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ پڑوس میں یا کس فلور پر کون کون رہتا ہے یعنی اب لوگوں نے روائتی خاندانی اداروں کو خیر باد کہہ کر اپنے ہم خیال لوگوں کا ایک حلقہ بنا لیا ہے۔ پھپھو، خالہ، چچا جیسے رشتوں کے نام بھی ایک دو نسلوں کے بعد کی نسلوں کو نہیں معلوم ہوں گے۔ شہروں میں پہلے چھوٹی فیملی کے تصور نے جگہ لی، پھر بچے کی ذمہ داری سے بچنے کے راستے تلاش کیے گئے اور اب نئی نسل شادی جیسے بندھن کو ہی پوری طرح نکارنے کی تیاری میں ہے کیونکہ اب ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کا چلن شروع ہو گیا ہے۔


بہر حال جیسے ایک وقت کے بعد پیڑ کے پرانے پتوں کی جگہ نئے پتہ جنم لے لیتے ہیں ایسے ہی انسانی تہذیب میں ترقی کے ساتھ پرانے سماجی تقاضوں کی جگہ نئے سماجی تقاضہ جگہ لے لیتے ہیں۔ اس تبدیلی کو ترقی اور ضرورت دونوں مل کر جنم دیتے ہیں۔ خاندان سے لے کر شادی جیسے بندھن کو ترقی نامی دیمک یا تو پوری طرح چاٹ گئی ہے یا پھر اس نے انہیں کھوکلا بنا دیا ہے۔ کورونا وائرس جیسی وبا کے دوران سماج کی بالکل نئی شکل سامنے آئی ہے اور اس بات کا احساس بڑھ رہا ہے کہ ضرورت اور ترقی مل کر پھر ایک نئی تہذیب کو جنم دینے جا رہے ہیں اور شائد اس مرتبہ یہ تبدیلی زیادہ تیز اور زیادہ انقلابی ہوگی۔

ایک مہینے سے گھر میں رہتے ہوئے کام کرنے کے دوران اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں لوگ پہلے سے زیادہ اپنے آپ میں سمٹ کر رہ جائیں گے۔ جس طرح بچے گھروں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ آنے والے دنوں میں چلن بن جائے گا اور تعلیمی ٹھیکیدار یا حکومتیں اسکول کی بڑی اور عالیشان بلڈنگوں کا خیال ہی ترک کر دیں گے۔ بیرونی ممالک کی بڑی یونیورسٹی میں وہاں جا کر تعلیم حاصل کرنے کا تصور ہی ختم ہو جائے گا، سب کچھ آن لائن ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ گھر بیٹھے حاصل ہو جایا کرے گا، آن لائن شاپنگ بازاروں کے لئے پہلے ہی خطرہ بنی ہوئی ہے۔


جس طرح وزیر اعظم سے لے کر کئی اہم ادارے اپنی میٹنگ ویڈیو کے کئی نئے پلیٹ فارم کے ذریعہ کر رہے ہیں اس نے میٹنگس کے دائرے کو ایک نئی جہت دی ہے۔ چھوٹے بڑے دفاتر کے ملازمین ورک فرام ہوم یعنی گھر سے کام کر رہے ہیں، پیسہ کا لین دین گھر بیٹھے ہو رہا ہے یعنی سماجی زندگی مزید سمٹ رہی ہے اور دھیرے دھیرے یہ ایک شخص کے وجود تک سمٹتی نظر آ رہی ہے، اس لئے آنے والے دنوں میں جب آپ بڑی بڑی بلڈنگوں اور بڑے بڑے فلائی اووروں کو منہدم ہوتے دیکھو تو اس کو صرف اس طرح دیکھنا کہ ترقی اور ضرورت مل کر ایک نئی تہذیب کو جنم دے رہی ہیں۔

ضرورت کا یہ انداز ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایسی تبدیلی لاتی ہے کہ وہ خاموشی سے آپ کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے اور اس مقصد کی حصولیابی کے لئے ترقی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ کورونا وبا سے تو نمٹ لیا جائے گا لیکن یہ مان کر چلیے کے یہ وبا جو ابھی طبی نظر آ رہی ہے ایک بڑی سماجی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگی اور ایک نئی تہذیب کو جنم دے گی۔ آج کی موجودہ سماجی زندگی ویسے ہی تاریخ ہو جائے گی جیسے وہ مہاورہ کہ ’دادا لے اور پوتا برتے‘۔ نئی انسانی تہذیب میں جہاں کسی کو کسی چیز سے لگاؤ نہیں ہوگا بس ایک مشینی زندگی ہوگی وہاں آپ کو بس پاسورڈ اور یوزر آئی ڈی ضرور کچھ سالوں تک یاد رکھنے ہوں گے کیونکہ وہی اب آپ کے سگے ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Apr 2020, 4:11 PM