کیوں نہ کہوں: کیا کیجیے، یہ نظام نئے وکاس دوبے کو جنم لینے سے نہیں روک پائے گا... سید خرم رضا

جب سے یہ خبر آئی ہے کہ وکاس دوبے پولس انکاؤنٹر میں ڈھیر ہوگیا ہے، سارے نیوز چینل بغیر بریک کے یہ خبر چلا رہے ہیں اور ہر طرح کے سوال اٹھا رہے ہیں کہ وکاس دوبے کا ٹرانزٹ ریمانڈ کیوں نہیں لیا گیا

user

سید خرم رضا

آج تو شاید ہی کسی کو یہ علم ہو کہ ہندوستان میں کورونا کے نئے معاملوں کی تعداد کتنی ہے اور اس میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے، نہ ہی کسی کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اتر پردیش میں 55 گھنٹے کے لاک ڈاؤن میں کیا پریشانیاں آسکتی ہیں یا پٹنہ میں ہفتہ بھر کے لاک ڈاؤن کا پہلا دن کیسا گزرا، نہ ہی کسی کو اس بات کو جاننے میں کوئی دلچسپی ہوگی کہ چین کتنا پیچھا ہٹا۔ ظاہر ہے آج تو اس میں کسی کی دل چسپی نہیں ہے۔ آج ہر آدمی اس شخص کی موت کے ہر پہلو کوجاننا چاہتا ہے جس سے سیاست داں سے لے کر پولیس کے ذمہ داران بھی خوفزدہ تھے۔ جی سب وکاس دوبے کے بارے میں سننا، دیکھنا اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعہ دوسروں کو پہنچانا چاہتے ہیں۔

آج سے آٹھ دن پہلے جس بدمعاش نے پولیس ٹیم پر حملہ کر کے اس کے آٹھ اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا اس کو آج ایس ٹی ایف کی ٹیم نے ایک مڈبھیڑ میں ڈھیر کر دیا۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ مجرم چاہے جتنا بڑا ہو، لیکن اس کا انجام یہی ہوتا ہے، کبھی کبھی اس پر یقین بھی ہوتا ہے، لیکن حقیقی تجربہ اس کے برعکس ہی رہا ہے۔ وکاس دوبے آٹھ پولیس والوں کو ہلاک کر کے اتر پردیش حکومت اور پولیس کو چکما دے کر اس مدھیہ پردیش سے گرفتار ہوتا ہے جہاں کے وزیر داخلہ اتر پردیش انتخابات کے دوران بی جے پی کے کانپور کے انچارج تھے۔ بہرحال ان اتفاقات پر اب کیا کہنا کیونکہ وکاس دوبے کے ڈھیر ہونے کے ساتھ اب ہر طرح کے سوالات بھی ڈھیر ہوگئے ہیں۔


جب سے یہ خبر آئی ہے کہ وکاس دوبے پولیس انکاؤنٹر میں ڈھیر ہوگیا ہے، سارے نیوز چینل بغیر بریک کے یہ خبر چلا رہے ہیں اور ہر طرح کے سوال اٹھا رہے ہیں کہ وکاس دوبے کا ٹرانزٹ ریمانڈ کیوں نہیں لیا گیا، میڈیا کی گاڑیوں کو ایکسیڈنٹ اور مڈبھیڑ کی جگہ سے کچھ کلومیٹر پہلے ہی کیوں روک دیا گیا، گاڑی پلٹی تو پولیس والوں کے چوٹ لگی لیکن وکاس دوبے کے نہیں لگی، وکاس دوبے جس کی ایک ٹانگ ٹھیک نہیں تھی وہ کیسے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا، جس وکاس دوبے کو اجین کے مندر میں بغیر کسی مڈبھیڑ کے گرفتار کرلیا گیا تھا اس کو ایس ٹی ایف کی ٹیم کیوں اپنے قابو میں نہیں رکھ پائی، اس کے ہاتھ کیوں نہیں بندھے ہوئے تھے، اس نے ایس ٹی ایف کی ٹیم کی پستول یا ہتھیار کیسے چھین لئے، بھاگنے والے کی کمر یا ٹانگ پر گولی نہ لگنے کی بجائے سینے اور سر میں گولی کیوں لگی، وکاس دوبے کے کئی ساتھیوں کی موت بھی اسی طرح کے انکاؤنٹر میں ہوئی اور نہ جانے کتنے سوالات۔ ذرائع ابلاغ کا کام ہے سوال پوچھنا اور وہ پوچھ بھی رہا ہے۔ اچھا ہے کہ میڈیا سوال پوچھے تاکہ سچائی کے کچھ پہلو تو سامنے آسکیں۔

اس مڈبھیڑ کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں نے جب پولیس اور اتر پردیش انتظامیہ کے حق میں نعرے لگائے تو گزشتہ سال کے دسمبر کا وہ واقعہ یاد آگیا جب تلنگانہ پولیس نے عصمت دری کے ملزمان کو ایک مڈبھیڑ میں مار دیا تھا۔ اس مڈبھیڑ کے بعد پورے ملک میں خاص طور سے تلنگانہ میں جشن کا ماحول تھا اور پولیس کی بہت تعریف کی گئی تھی کہ ملزمان کو صحیح سزا مل گئی۔ وکاس دوبے کے معاملہ میں بھی اس کے خلاف غصہ اس قدر تھا کہ اس مڈبھیڑ میں اس کی ہلاکت کو نہ صرف اچھی نظر سے دیکھا جا رہا ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کی جا رہی ہے۔


جس جرائم پیشہ بدمعاش نے ملک کے آٹھ پولیس والوں کو ہلاک کردیا ہو اس کی موت پر خوشی کے علاوہ اور کیا ہوگا، لیکن اس کی موت نے کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ ان پولیس والوں کا کیا ہوگا جن کو وکاس دوبے کا معاون بتایا جارہا ہے، ان سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کا کیا ہوگا جن سے وکاس کے تعلقات تھے اور جن کی سرپرستی میں اس نے جرائم کی دنیا میں یہاں تک کا سفر طے کیا تھا، جن کی سرپرستی میں وہ تھانے کے اندر ایک سیاست داں کو مارنے کے باوجود بری ہوگیا تھا۔

آج کے انکاؤنٹر سے بہت سے ان لوگوں کو چین کی نیند آئے گی جن کے کبھی نہ کبھی وکاس کے ساتھ تعلقات رہیں ہوں گے، چاہے دوستی والے یا دشمنی والے، کیونکہ وکاس کے ساتھ بہت سی فائلیں بند ہوجائیں گی۔ اب سب سے بڑا سوال پولیس محکمہ پر ہے کہ کسی بدمعاش کا قد اتنا بڑا کیسے ہوا، اس کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ کوئی ان کے آٹھ اہلکاروں کو ہلاک کر دے، ہلاک کر کے ان کی ریاست سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوجائے اور وہ پولیس اپنے ساتھیوں کے ملزم کو جیل کی قید میں بند رکھ کر قانونی سزا دلوانے سے محروم رہ جائے۔ سوال عوام سے بھی ہے کہ کیا اسے ایسے عمل پسند ہیں، جس میں مجرم اور ملزمین بغیر عدالتی کارروائی کے مڈبھیر میں مارے جائیں، اگر نہیں تو وہ پولیس کی نااہلی پرسوال ضرور اٹھائیں، کیا عوام کا عدلیہ پر سے اعتماد کم ہوگیا ہے۔ عدلیہ کو بھی اس پرغور کرنا ہوگا کہ کیا مجرم عدالت کے موجودہ قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سالوں تک ان کو سزا نہیں ہوتی، تاریخ پر تاریخ پڑتی رہتی ہے اور مجرموں کا جرم کا کاروبار ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔


اس خبر کی بھی دوسری خبروں کی طرح تین چار دن سے زیادہ کی زندگی نہیں ہے کیونکہ اس خبر کو بھی کوئی دوسری بڑی خبر انکاؤنٹر کردے گی اور پھر ہم اور آپ اس نئی خبر پر بحث کرنے لگیں گے۔ زندگی اور یہ سماج ایسے ہی چلتا رہے گا، یہ نظام نئے وکاس کو جنم دے گا اور انسان ان خبروں کو سنتا، دیکھتا اور آگے بڑھاتا رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔