بہادر شاہ ظفر: سیکولرزم کی بہترین مثال

آخری مغل حکمراں بہادر شاہ ظفر کے آخر وقت کی عکاسی کرتی ہوئی ایک تصویر (فوٹو فیس بک)
آخری مغل حکمراں بہادر شاہ ظفر کے آخر وقت کی عکاسی کرتی ہوئی ایک تصویر (فوٹو فیس بک)
user

تنویر احمد

اے ظفرؔ خاک سے انسان کا بنا ہے پتلا

خاکساری ہی سے دنیا میں ہے انساں کی نمود

درج بالا شعر بہادر شاہ ظفر کی شخصیت کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ مغلیہ حکومت کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر ہندوستان اور ایران کی تہذیب و ثقافت کے آخری تاجدار ہی نہیں تھے، وہ سیکولرزم کے حقیقی علمبردار بھی تھے۔ بہادر شاہ کی انسان دوست اور غریب پروری کسی سے پوشیدہ نہیں۔ راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ نہ صرف دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکاروں کی خدمات کا اعتراف کرتے تھے بلکہ ان کی خوشیوں، غموں اور تہواروں میں بصد شوق شریک بھی ہوا کرتے تھے۔ مہاتما گاندھی کے خاص دوست سی ایف اینڈریوز نے اپنی تحریر میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت ہندو-مسلم اتحاد کافی مضبوط تھا۔ انھوں نے لکھا ہے:

"ہندوؤں کے تہواروں کے موقعے پر ہندو گھرانے کے بچے مساجد کے مکتبوں کے اساتذہ کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لایا کرتے تھے۔ وہ اپنے استادوں کو اپنے گھر میں دعوت دے کر بلاتے تھے تاکہ وہ بھی ان مسرتوں میں شریک ہوں۔۔۔ اسی طرح مسلمان بھی ہندوؤں کے مذہبی تہواروں کا ذکر بڑے احترام سے کرتے تھے اور اس بات کا خاص لحاظ رکھتے تھے کہ وہ ہندو رسوم کے خلاف کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے ان کی دل آزاری ہو۔ معاشرتی تقریبات کے مواقع پر، مثلاً شادی بیاہ میں وہ لازمی طور پر اپنے ہندو دوستوں کو تحفے بھیجتے تھے اور ان سے درخواست کرتے تھے کہ شادیوں میں شرکت کر کے انہیں عزت بخشیں۔"

قابل ذکر بات ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کے دوران انگریزی جاسوسوں نے ہندو-مسلم اتحاد کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے گائے ذبیحہ کا جھگڑا پیدا کر دیا تھا لیکن غیر معمولی سیکولرزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہادر شاہ ظفر نے 9 جولائی 1857 کو اعلان کروا دیا کہ گائے ذبیحہ کرنے والوں کو توپ سے اڑا دیا جائے گا۔ معروف مصنف حسن نظامی نے اپنی تصنیف "دلی کا آخری سانس" میں اس تعلق سے تذکرہ بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ بقرعید کے تہوار کے پیش نظر بہادر شاہ نے شہر کے کوتوال مبارک خاں کو ایک حکم نامہ بھیجا جس میں تحریر تھا کہ "گائے کا ذبیحہ یا قربانی قطعی ممنوع قرار دیا جائے، کہ کسی بھی جانب سے گائے یا بھینس فروخت کرنے والے آج سے لے کر عید کے تین روز بعد تک گائے یا بھینس شہر میں نہ لائیں۔ جن مسلمانوں نے گائیں پال رکھی ہیں وہ اپنی گائیں کوتوالی میں بندھوا دیں۔ اگر کوئی شخص خفیہ طور پر یا اعلانیہ گائے کی قربانی کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی"۔ بہادر شاہ کی اسی خوبی کے سبب مسلمانوں اور ہندوؤں میں وہ یکساں عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ ملت سے محبت دوسرے مذاہب سے عشق کا جذبہ اپنے سینے میں رکھتے تھے۔ تعصب جیسی کوئی چیز ان کی شخصیت کا حصہ نہیں تھی۔

بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ بادشاہ تو کہلاتے تھے لیکن اقتدار اور اختیارات ان کے پاس نہیں تھے۔ وہ اس قدر بے بس بادشاہ تھے کہ مرزا غالب کی جوا کھیلنے کے جرم میں گرفتاری کے بعد انھیں آزاد کرانے کے لیے پیروی بھی نہیں کر پاتے تھے۔ ان کی اس بے بسی کا اعتراف انگریز مورخ اسپیرس نے ان الفاظ میں کیا ہے: "آئینی بادشاہ ہوتے تو مثالی ہوتے مگر قسمت نے قادر مطلق شہنشاہ بنا دیا، وہ بھی اختیار و اقتدار کے بغیر۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس علم دوستی اور ادب نوازی کے چرچے محفل محفل ہوئے تھے، یہی اب اس کے معائب مان لیے گئے۔ جن ہاتھوں میں زمانہ شمشیر و سناں دیکھنا چاہتا تھا، انھوں نے قلم اٹھا لیا اور جس کو زبان فرمان نافذ کرنے کے لیے ملی تھی اس نے شعر گوئی شروع کر دی۔" اپنی اس بدنصیبی کا احساس بہادر شاہ ظفر کو بھی ہمیشہ رہا۔ غالباً اپنا یہی درد انھوں نے اپنے درج ذیل اشعار میں پیش کیا ہے:

یا توافسر میرا شاہانہ بنایا ہوتا

یا میرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

زور معمورۂ دنیا میں خرابی ہے ظفر

ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا

ایک بے بس اور بے اختیار بادشاہ ہونے کا کرب ہی تھا کہ ان کی طبیعت درویشانہ ہو گئی تھی۔ ان کو تصوف سے گہرا لگائو ہو گیا تھا۔ حتی کہ شاعری میں بھی تصوف کا رنگ نظر آنے لگا تھا۔ انھوں نے 'خیابان تصوف' کے نام سے ایک کتاب بھی تصنیف دی۔ دراصل تصنیفات اور شعر و شاعری کو انھوں نے اپنا دل بہلانے کا ذریعہ بنا لیا تھا اور اپنے احساسات، جذبات و آپ بیتی کو لفظوں میں ڈھالنا شروع کر دیا تھا۔ بطور مثال ان کی مشہور زمانہ غزل دیکھیے:

لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالمِ نا پا ئیدار میں

بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ

قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں

کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہا ں ہے دلِ د اغدار میں

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

ہے کتنا بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

بہادر شاہ ظفر 1857 کی جنگ آزادی کے پہلے قائد تھے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ انگریزوں کے مظالم سے مکمل واقفیت کے باوجود وہ اس جنگ کی سربراہی کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کا نتیجہ بہت اچھا نہیں نکلے گا۔ لیکن عوام کی خواہش اور ضد کا احترام کرتے ہوئے انھوں نے قائد کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ لیکن اس سے پہلے انھوں نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ:

"سنو بھائی، مجھے بادشاہ کون کہتا ہے، میں تو فقیر ہوں ایک تکیہ بنائے ہوئے اپنی اولاد کو لیے بیٹھا ہوں۔ یہ بادشاہت تو بادشاہوں کے ہمراہ گئی۔ میرےباپ دادا بادشاہ تھے جن کے قبضے میں ہندوستان تھا۔۔۔ میں تو ایک گوشہ نشین آدمی ہوں مجھے ستانے کیوں آئے ہو۔ میرے پاس خزانہ نہیں کہ میں تم کو تنخواہ دوں گا، میرے پاس فوج نہیں کہ میں تمھاری امداد کروں گا۔ میرے پاس ملک نہیں کہ تحصیل کر کے تمھیں نوکر رکھوں گا۔ میں کچھ نہیں کر سکتا ہوں، مجھ سے کسی طرح کی توقع استطاعت کی نہ رکھو۔" [داستان غدر، ص 49-50]

مذکورہ بالا بیان سے بہادر شاہ ظفر کی حیثیت اور ان کی دلی کیفیت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ اور جس بات کا خوف تھا بالآخر وہی ہوا۔ انگریزوں نے لوگوں پر مصیبتوں کا پہاڑ توڑا۔ بے تحاشہ خون خرابہ ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کو بھی ملک بدر کی سزا دی گئی۔ 17 اکتوبر کو وہ رنگون پہنچا دیے گئے۔ ساتھ میں خاندان کے 35 مرد و خواتین بھی تھے۔ رنگون میں حالانکہ ان کے رہنے، کھانے اور دیگر مصاف دیے جاتے تھے لیکن کاغذ و قلم سے انھیں محروم کر دیا گیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی کچھ لکھ نہیں سکتے تھے۔ ایسی صورت حال کا سامنا کرنا کسی خوددار بادشاہ کے لیے کیسے ممکن تھا۔ یہی سبب ہے کہ دھیرے دھیرے ان کی طبیعت ناساز سے ناسازتر ہوتی گئی اور بالآخر 7 نومبر 1862 کی خنکی بھری صبح میں انھوں نے اس دارفانی کو الوداع کہہ دیا۔ اور ساتھ ہی ان کا یہ خواب بھی ہمیشہ کے لیے خواب ہی رہ گیا کہ ان کی تدفین اپنے پیش رو بادشاہوں کی طرح دلی میں ہوتی۔ انھوں نے تو اپنی تدفین کے لیے مہرولی میں قطب مینار کے نزدیک ظفر محل میں ایک جگہ بھی منتخب کی ہوئی تھی جو کہ آج بھی خالی ہے۔ لیکن بہادر شاہ ظفر کو اپنی اس محرومی کا اندازہ پہلے سے ہی ہو چکا تھا، اسی لیے تو انھوں نے کہا تھا کہ:

ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Aug 2017, 11:39 AM