’مسلم راشٹریہ منچ‘ کے ذریعہ قربانی کی مخالفت محض آر ایس ایس نوازی

مسلم راشٹریہ منچ کے اراکین آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار کے ساتھ (Getty Images)
مسلم راشٹریہ منچ کے اراکین آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار کے ساتھ (Getty Images)
user

تنویر احمد

گزشتہ دنوں نام نہاد مسلم تنظیم ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کے عہدیداران نے ایک تقریب کے دوران اسلام کے اہم رکن ’قربانی‘ پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا اور کچھ ایسی دلیلیں پیش کیں جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں تھا۔ اس سلسلے میں مسلم راشٹریہ منچ کے تین عہدیداروں نے پریس کانفرنس میں ’قربانی‘ کے خلاف باتیں کیں جن کے نام خورشید آغا (کو-کنوینر، مسلم راشٹریہ منچ، اتر پردیش)، ٹھاکر راجہ رئیس (کنویر، مسلم راشٹریہ منچ، مشرقی اتر پردیش) اور سید حسن کوثر (کنوینر، راشٹریہ مسلم منچ، اودھ) ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ ’مسلم راشٹریہ منچ‘ ہے کیا؟ اس کے لیے بس اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ یہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ہے۔ اگر اس تنظیم کے بارے میں مزید کچھ جاننا چاہتے ہیں تو مسلم راشٹریہ منچ کے فیس بک پیج پر چلے جائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ ’آئی سپورٹ آر ایس ایس‘ کا ویڈیو شیئرکرتے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ وہ رام رحیم پر کارروائی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور امام بخاری کا موازنہ رام رحیم سے کرتے ہیں۔ وہ پوسٹ کرتے ہیں کہ پختہ ثبوت ہوتے ہوئے بھی لیڈروں، اداکاروں اور صحافیوں کو ضمانت دی جاتی ہے لیکن آشا رام کوحراست میں رکھا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جنید اور اخلاق پر دن رات رونے والی میڈیا کیرالہ میں آر ایس ایس کارکن کے قتل پر خاموش ہیں۔ وہ یہ بھی پوسٹ کرتے ہیں کہ کرناٹک میں مندروں کا پیسہ عیسائی کانوینٹ اسکولوں کو دیا گیا ہندو اسکولوں کو نہیں۔ گویا کہ ان کے سبھی پوسٹ اور شیئر ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف غلط دلائل پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو گمراہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ’قربانی‘ جیسے ایشو پر خورشید، ٹھاکر راجہ اور حسن کوثر نے جو کچھ کہا وہ گمراہ کرنے والا کم اور مضحکہ خیز زیادہ ہے۔

سب سے پہلے مسلم راشٹریہ منچ، اتر پردیش کے کو کنوینر خورشید آغا کی بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بقرعید میں قربانی کے تئیں سماج میں توہم پرستی پھیلی ہوئی، مسلمان خود کو ایمان والا تو کہتا ہے لیکن حقیقت میں اللہ کی راہ پر چلنے سے غافل ہو گیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’اسلام میں قربانی جائز نہیں ہے تو جانوروں کی قربانی کیوں دی جا رہی ہے؟‘‘ اس سوال پر مدرسہ کا کوئی بھی بچہ ہنسے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ معلوم نہیں خورشید آغا نے کس کتاب میں پڑھ لیا کہ ’اسلام میں قربانی جائز نہیں ہے۔‘ لگتا ہے انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا واقعہ پڑھا ہی نہیں۔

کنوینر، مسلم راشٹریہ منچ، مشرقی اتر پردیش ٹھاکر راجہ رئیس کہتے ہیں کہ ’’جب حضرت ابراہیم کے ذریعہ کسی جانور کی قربانی نہیں دی گئی تو پھر مسلم سماج میں بقرعید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کیوں دی جا رہی ہے۔‘‘ اب ان کی کم علمی کا کیا کریں۔ انھیں پتہ ہی نہیں کہ حضرت ابراہیم نے جب اپنے صاحبزادے کی قربانی دینی چاہی تھی تو ان کی جگہ ایک دنبہ ذبح ہوا تھا۔ اور اللہ کو یہ عمل اتنا پسند آیا تھا کہ قیامت تک کے لیے فریضہ کی حیثیت دے دی۔ اور پھر اللہ کا یہ کہنا کہ: ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے (سورۃ الحج، آیت 37)، بھی تو قربانی کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے۔ اگر کوئی قرآن کو ہی غلط ٹھہرانے لگے تو شبہ ہونا لازمی ہے کہ وہ اسلام کا پیروکار ہے۔ راجہ رئیس نے جانے کہاں سے یہ بات بھی کہہ دی کہ نبی کے فرمان کو دیکھتے ہوئے جانوروں کی قربانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس میں جان ہوتی ہے۔ لیکن ایک صحافی نے یہ سوال کر کے انھیں خاموش کر دیا کہ پودے اور سبزیوں میں بھی جان ہوتی ہے تو کیا اسے بھی نہیں کھانا چاہیے؟

مضحکہ خیز دلائل پیش کرنے والے خورشید اور ٹھاکر راجہ کی طرح سید حسن کوثر (کنوینر، مسلم راشٹریہ منچ، مشرقی اتر پردیش) نے بھی اپنی دلیلوں سے جاہلیت کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’تین طلاق کی طرح ہی بقرعید کے موقع پر جانوروں کی قربانی ایک غلط رسم ہے۔ ہم سب اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اس لیے سماج کو برائیوں سے نکالنا ہوگا۔‘‘ حسن کوثر کو نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ کا مطالعہ کرنا چاہیے جو انھوں نے اپنی زندگی کے آخری حج کے دوران دیا تھا۔ اس خطبہ میں دین اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یقیناً حسن کوثر کو خبر نہیں ہوگی کہ قرآن شریف میں سورۃ المائدہ کی آیت 3 میں اللہ نے فرمایا ’’آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے‘‘، یہ آیت منیٰ میں نازل ہوئی تھی اور وہ یوم النحر تھا۔ یوم النحر یعنی عیدالاضحیٰ اور قربانی کا دن۔ اَب ہم اکیسویں صدی میں جئیں یا پچیسویں صدی میں، یا پھر پچاسویں صدی میں... دین اسلام جو 1400 سال قبل مکمل ہو چکا تھا اس میں کوئی تبدیلی قابل قبول نہیں۔

’مسلم راشٹریہ منچ‘ سے منسلک مسلم لیڈروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ’مسلم‘ نام سے کوئی تنظیم تشکیل دینے سے یا کسی شخص کا مسلم نما نام ہونے سے وہ مذہبی معاملوں میں دخل اندازی کا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کر لیتا ہے۔ اور ویسے بھی مذہبی معاملوں میں مسلمان اتنا بے وقوف نہیں ہے جتنا کہ آر ایس ایس والے اور اس کی تنظیمیں سمجھ رہی ہیں۔ ’مسلم راشٹریہ منچ‘ والے اپنے فیس بک پیج پر پروفائل پکچر میں ٹوپی پہنے ہوئے بچے کی ترنگے کے ساتھ حب الوطنی ظاہر کرنے والی تصویر تو لگا سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہوگا کہ وہ ترنگے سے محبت کرنے لگے ہیں یا ملک کے تئیں قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نہ تو ملک کے لیے کوئی قربانی دی ہے اور نہ ہی وہ قربانی کے مقصد کو سمجھ سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔