سر سید کا خواب اب بھی پوری طرح شرمندۂ تعبیر نہیں... ظفر آغا

ایسا لگتا ہے کہ مسلمان نے سر سید مشن کا آدھا حصہ تو اپنایا، لیکن سر سید کا جو جدیدیت کے بارے میں ایک وسیع نظریہ تھا اس کو نہیں اپنا سکے۔

<div class="paragraphs"><p>سر سید احمد خاں / تصویر: شاہد صدیقی علیگ</p></div>

سر سید احمد خاں / تصویر: شاہد صدیقی علیگ

user

ظفر آغا

سر سید احمد خان کا ایک اور یومِ پیدائش، اور دنیا بھر میں اس کا جشن منایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ سر سید ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کتنی اہم شخصیت تھے۔ سر سید کا کمال محض یہ نہیں تھا کہ انھوں نے علی گڑھ تحریک کے ذریعہ مسلم قوم کو جدید تعلیم کا راستہ سجھایا بلکہ اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ انھوں نے قوم کو ماڈرنٹی یعنی جدید طرز حیات کا راستہ بھی دکھایا۔ دراصل جدید تعلیم کامیاب ذریعہ ہے کسی بھی قوم کو انڈسٹریل انقلاب سے پیدا ہونے والے تقاضوں کو کامیابی سے سر کرنے کا۔ سنہ 1857 میں مغلوں کے زوال کے بعد ہندوستانی مسلمان یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ انگریز حکومت کے دور میں کس طرح کامیاب زندگی گزارے۔ سر سید نے انگلینڈ کا دورہ کیا اور سائنس و ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبہ میں جو کایا پلٹ کی تھی اس کو سمجھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا نظریہ حیات ماڈرن دور میں لایعنی ہو چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مغلیہ زوال کے بعد اپنے ماضی کا ماتم چھوڑ کر جدید تعلیم کے ذریعہ یورپ کی طرز پر انڈسٹریل انقلاب سے پیدا ہونے والے جدید ذرائع سے جڑ جایا جائے۔ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سر سید نے علی گڑھ میں 1875 میں ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جو جلد ہی ایک شاندار یونیورسٹی بن گیا!

لیکن کیا ہندوستانی مسلمان سر سید کے اصل مقصد یعنی ’جدیدیت‘ سے پوری طرح جڑ کر انڈسٹریل انقلاب کے بعد کی زندگی گزارنے میں کامیاب ہو سکا۔ اس کا جواب ہاں اور نہیں دونوں ہو سکتا ہے! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ایک نئی جدید تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی نسل پیدا کی جو تعلیم یافتہ ہے اور موجودہ دور میں ہندوستان سے لے کر دنیا بھر میں ہر جگہ کامیاب زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر مسلمان اتنا ہی لاچار ہے کہ جتنا وہ 1857 (غدر) کی شکست کے بعد تھا۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ آج کے ہندوستان میں وہ اتنا ہی لاچار ہے جیسا کہ سنہ 1857 کے زوال کے بعد تھا۔ اس وقت وہ انگریزوں کا غلام تھا اور آج وہ ہندوتوا کا غلام ہے۔ یعنی ایک مسلم طبقہ کے پاس جدید نسل ہونے کے باوجود مسلمان سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے آج بھی کم و بیش انہی حالات سے جوجھ رہا ہے جو اس کو 1857 کے بعد درپیش تھے۔


تو کیا سر سید کا انقلاب رائیگاں گیا۔ موجودہ حالات تو کچھ ایسی ہی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر یہ دلیل درست ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان آج لاچار و مجبور ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ مسلمان نے سر سید مشن کا آدھا حصہ تو اپنایا لیکن سر سید کا جدیدیت کے بارے میں ایک وسیع نظریہ تھا وہ اس کو نہیں اپنا سکا۔ محض جدید تعلیم کسی بھی قوم کو ترقی یافتہ نہیں بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے قوم کو جدید طرز زندگی بھی اپنانا پڑے گی۔ یورپ 19ویں صدی تک بہت حد تک ایشیا اور خصوصاً مسلمانوں سے پسماندہ تھا۔ لیکن جب ان کے یہاں انڈسٹریل انقلاب کی شروعات ہوئی تو اس نے اپنی معیشت، سیاست و سماجی زندگی کو بھی بدل ڈالا۔ بادشاہت کی طرح جمہوری طرز ریاست، زمیندارانہ معیشت کی جگہ نئی انڈسٹریل معیشت اور زمیندارانہ سماجی قدروں کی جگہ نئی سماجی قدروں کو اپنا کر انگریزوں نے جدید دور کو اپنی مٹھی میں کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ہم اس سماجی، سیاسی اور معاشی انقلاب کی قدروں کو نہیں اپنا سکے، جو جدید زندگی میں کامیابی کے اصل راستے ہیں۔ یعنی اس اکیسویں صدی میں ساری دنیا میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کی جدید قدروں کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سر سید کا خواب پوری طرح تب ہی شرمندۂ تعبیر ہوگا جب ہم یورپین کی طرح اپنی تہذیبی قدروں کے ساتھ ساتھ زندگی کی جدید قدروں کو بھی اپنائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔